Monday, June 1, 2015 0 comments

اسلامی نظام ، زکوۃ اور ٹیکس

اسلامی نظام کے زکوات کو جدید دور کے ٹیکس کا نعم البدل تصور کیا جاتا ھے ، مگر دونوں میں واضع انداز سے کئی بنیادی فرق ھیں۔ جن میں کچھ اس طرح ہیں کہ:
۱۔ زکوات صرف وہی ادا کرتا ہے  جو اس کے ادا کرنے کے قابل ہوتا ھے، جبکہ جدید طرز کے معاشروں میں امیر و غریب ھر طبقے کے لوگوں سے ٹیکس وصولی کی جاتی ھے۔ 
۲۔ زکوات میں بنیادی استعمال میں آنی والی اشیاء مثلاْ ذاتی استعمال میں آنے والے گھر اور گاڑی پر  استسنٰی حاصل ہے۔ جبکہ جدید معاشرے اس فکر سے عاری ہیں۔
۳- زکوات سال میں صرف سال میں ایک بار ادا کرنا ہوتا ھے ، جبکہ جدید معاشروں میں ھر ممکن طریق سے عوام کے جیبوں کو جھاڑآ جاتا ہے، معمولی چیزوں کی خرید فروخت پر روزانہ سیلز ٹیکس ، آمدنی پر ماھانہ انکم ٹیکس اور جائداد، گاڑی وغیرہ پہ سالانہ پراپرٹی ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔
۴۔ زکوات امراء سے لیکر غرباء کو دی جاتی ہے اور جبکہ جدید معاشروں میں غریب عوام کے ٹیکس پرسیاستدان، افسر شاھی اور حکمران عیاشاں کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسلام میں خلیفہ کی بھی تنخواہ عام مزدور کی دہاڑی کے حساب سے دی جاتی ھے، اس سے زیادہ اس کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے سرکاری خزانے پر۔
۵ - جدید معاشروں میں سخت قسم کے کارپوریٹ ٹیکس لگائے جاتے ہیں جن کا مقصد بڑے اور سرمائیدار طبقے کو تحفظ دینا اور متوسط طبقے کو اوپر آنے سے روکنا ہوتا ہے،  اس قسم کے ٹیکس نافذ کرنے میں خود کارپوریٹ سیکٹر حکومتوں کا بھرپور ساتھ دیتی ہے تاکہ ان کی اجارہ داری قائم رہے، جبکہ اسلام نظام زکوات میں اس طرح کی کوئی تفریق نہیں بلکہ غریبوں کو زکوات سے چھوٹ دی جاتی ہے اور بنیادی سہولتیں رکھنے والے متوسط طبقے کو رعایت دی جاتی ہے اور مال ملکیت کے حجم کے معیار بغیر ان سے ایک مقرر کردہ معمولی ٹیکس یعنی زکوات وصول کرکے ، ان طبقات کو بھی اگے بھڑنے کا پورا موقع دیتی ہے۔ 
،،،
اب جو کہتے ہیں کہ اسلام دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ، یا یہ صرف کسی مخصوص طبقے کا تحفظ کرتی ہے ،،، تو انہیں آپ عقل سے پیدل نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ۔۔۔!
بھلا انسان کو خالق سے زیادہ جاننے والا اور کوئی اور ہوسکتا ہے کیا؟۔
ذرا سوچو ،،،
0 comments

دلچسپ و عجیب !!!!!


دلچسپ و عجیب !!!!!
پاکستان بننے سے لیکر اب تک اسلامسٹوں اور سیکولرز میں یہی لڑائی جاری رہی کہ
با با جناح نے یہ ملک اسلام کے قلعے کے طور پر بنایا تھا ،،،،،،، یا ایک سیکولر اسٹیٹ ،،
68 سال گذرنے کے باوجود ابھی تک ان کے درمیان یہ فیصلہ تو نہ ھو سکا ،،،
البتہ اسلامسٹوں کو قرارداد مقاصد کی چوسنی اور سیکولرز کو قدرے آزاد معاشرے کی 
جھلک دکھا کر ایڈہاک ازم کی بنیاد پر یہ ملک چلایا جا رہا ھے ،،،،
عجیب بات تو یہ ھے کہ ان نعروں میں ایک نعرہ جمہوریت کا بھی تھا، اور ماشاءاللہ جس
کے نتیجہ میں اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی رکھا گیا ھے ،،،
مگر حقیقی طور پر غور کریں تو نہ اسلام ھے اور نہ حقیقی سیکولرزم اور جمہوریت کی
بجائے ھم مارشل لاء کے زیادہ قریب ھیں ،،،،،،،،،
نعیم الله کاکاخیل کی وال سے
Saturday, January 10, 2015 0 comments

اسلامی معاشرے میں مذاہب غیر کے پرچار کی ممانعت کی منطق

ہر معاشرے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں،  کسی کا ہاں مذہب ایک اہم پہلو ہے تو کسی کے ہاں سیاست تو کسی کے ہاں معشیت تو کہیں نظریات۔ اور ہر ایک معاشرہ اپنی اپنی ترجیحات مقرر کرنے میں آزاد ہے۔ 

یورپ اور امریکا میں آپ ہٹلرکے ہاتھوں یہودیوں کی مبینہ نسل کشی سے انکار نہیں کرستے۔ آپ کو کوئی حق نہیں ھولوکاسٹ کے کومسترد کریں۔ آپ اسپیکر پر اذان نہیں دے سکتے ، آپ کی عورتیں نقاب نہیں کرسکتی ہیں۔ آپ وہاں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کا پرچار نہیں کرستے اور عراق ، افغانستان میں قتل کیئے گئے لاکھوں بچوں اور مد اور عورتوں کا وکیل نہیں بن سکتے کیونکہ وہ پوری طرح سے یہود کی مفادات کا نگہبان ہے۔ یہ ان کی ترجیحات ہیں۔

اسی طرح چین ، کوریا  شمالی سمیت کسی کمیونسٹ ملک میں اشتراکی نظام کے خلاف بات نہیں کرسکتے، آپ دین اسلام  یا کسی مذہب کا پرچار بھی نہیں کرستے حتی کہ کئی جگہ پر آپ عبادت گاہ بھی نہیں جاتا۔  اسی طرح کئی افریکی ممالک میں کسی غیر مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں دیتی ہیں بلاشبہ یہ ان کی ترجیحات ہیں۔ 
اب ان بتی بند روشن خیال اندہوں کو کون سمجھائے کہ مسلمان ایک قوم ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کے دیار میں آکے کوئی انتشار پھیلانے کی کوشش کرے ، یہ ہمارے معاشرے کی ترجیحات ہیں اور مسلمان معاشرے باقی اقوام کی طرح اپنی ترجیحات میں آزاد ہیں۔
Friday, September 26, 2014 0 comments

بیٹی حالات کی سولی پر

بیٹی حالات کی سولی پر
جنم بناہے قتل کاپرچم

اظہار کر رہے ہیں ، اخلاقی اصلاحات اور معاشرے کو درست کر نے کے بارے میں اخباروں میں اعلانات کئے جاتے ہیں مگر معاشرہ نہ تو اخباری بیانات سے اور نہ ہی اخلاقیات پر تقریریں جھاڑنے سے دُرست ہوتا ہے۔
تاریخ کے ابتدائی ادوارکے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ کی سر براہی کبھی عورت کے ہاتھ میں تھی لیکن زمانے کے اُتار چڑھائو اور معاشرے میں زور زبردستی اور طاقت کے رواج نے آہستہ آہستہ پورا سماج مرد کے ماتحت کر دیا۔ عورت کو مردوں نے گھر کے سوا تمام معاملات سے بے دخل کر دیا۔ بچے پیدا کرنا اور گھر کی دیکھ بھال ،کھانا پکانا ہی عورت کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی،یہاں تک کہ ماڈرن زمانے میں عورت کے حقوق کی مختلف ملکوں میں تحریکیں چلیں اور اس طرح عورتوں کو گھر سے باہر بھی کام کرنے کی راہ مل گئی۔
دختر کشی کی لعنت کیوں اور کہاں سے پیدا ہوئی ہے؟ جب ہم ماضی کے بارے میں تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے یو نان میں دختر کشی کارواج تھا ۔یونان میں 200 قبل مسیح میں لڑکیوں کو مارنے کا اِس قدر رواج تھا کہ 6 ہزار خاندانوں میں صرف ایک فیصد خاندان میں دو لڑکیاں تھیں۔ یونانی فلا سفر جیسے اِرسطو اورافلاطون کے خیالات عورتوں کے بارے میں جس قسم کے تھے، اس سے یونان کے سماج میں عورتوں کے رتبے کا پتہ چل جاتا مثلاً  ارسطو عورت کے بارے میں کہتا ہے ’’ عورت مکمل Human being نہیں ہے اور عورت کی فطرتFull Human Person نہیں ہے‘‘۔ ان حالات میں عورت پر اعتبار تو دُور اسے نیچی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ چند اونچے خاندانوں کے بغیر یونان کے سماج میں عورتوں کے ساتھ جانوروں اور غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ارسطو کے اسی نقطہ نظر کو بعد میں ابتدائی کیتھو لک چرچ نے اپنا یا۔ Saint-Thomas of Aquinis  نے اپنی ابتدائی تحریروں میں عورت کو شیطان کا جال قرار دیا تھا اور یونانی فلسفہ نے عورت کو آدمی کے لئے تباہی کی علامت قرار دیا تھا۔ وہ تمام شیطانی کام عورت کے سر منڈ دیتے تھے اور یہی تحریریں اور خیالات عورت کے بارے میں چرچ کے پادری قرونِ وسطیٰمیں رکھتے تھے لیکن یورپ میں پروٹسٹنٹ مصلحین نے اپنے آپ کو کیتھو لک چرچ کے ا ن خیالات سے آزاد ہونے کی تحریک چلائی لیکن فرانس میں بھی انقلاب کے دوران کچھ فلا سفروں اور دانشوروں نے عورت کو مکمل انسان کی تخلیل نہیں مانا جیسے کہ روسواور ولٹائل اور دوسروں نے کہا کہ ’’عورت ایک بوجھ ہے جس کی دیکھ بھال کرنا مرد کے ذمہ ہے۔روسونے اپنی کتاب "EMILE" میں عورت کی تعلیم پر زور دیا اور اس نے مختلف طریقے عورت کی تعلیم کے بارے میں پیش کئے کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ’’عورت مرد کے مقابلے میں کم عقل رکھتی ہیں‘‘۔ اُس کے بعد یورپ میں 18 ویں صدی میں عورتوں اور کچھ مردوں نے ان خیالات کے خلاف تحریک چلائی جس کو Feminine Movement  کے نام سے جانا جاتا ہے ا ور اس پر پہلی کتاب Mary Walsen Craft نے Vindication for the rights of Women لکھی ہے۔ سب سے پہلے 8 اویں صدی میں ہی یورپ اور امریکہ میں عورت کو کچھ حقوق مل گئے جیسے کہ عورت کو اپنی پراپرٹی رکھنے کا حق نہیں تھا اور 8 اویں صدی میں ہی عورت کو یورپ اور امریکہ میںیہ حق مل گیا۔
صنعتی انقلاب جب یورپ میں آیا اور خاص طور پر انگلینڈ میں اور عورت کو زبردستیCoal, mines میں کام کرایا جاتا تھا اور مرد کے برابر ان کو تنخواہ نہیں ملتی تھی، جس پر یورپ اور انگلینڈ میںحقوقِ نسواں تحریک شروع ہوگئی اور عورت کو قانونی حقوق مردوں کے برابر یورپ میں ملنے لگے۔
پچھلی اور رواں صدی میں جب عورت کو مرد کے برابر درجہ ملنے لگا اور عورت مرد کے شانہ بشانہ مختلف ملکوں میںا پنی صلا حیتوں کو مردوں سے بڑھ کر بھی ظاہر کرنے لگی، عورت نے پائلٹ بن کر جہاز چلا نا شروع کیا اور چاند پر پہنچنے لگی۔ سیاست ، میڈیکل ، سو شالوجی ، سائنس میں اور دوسرے شعبوں میں جب عورت مرد سے آگے جانے لگی تو عورت کے خلاف دختر کشی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ یہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ چین میں بھی لڑکی کو ماں کی پیٹ میں ہی مارا جاتا ہے ۔
عالمی ادارۂـ صحت نے 1997ء میں رپورٹ دی کہ ’’ چین میں 50 ملین لڑکیاںغائب ہوئی ہیں کیونکہ چین میں دوسرے بچے کی پیدائش پر چونکہ پا بندی ہے اس لئے جن ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں انہوں نے ان کو غائب کر دیا۔ Brain Wood کے مطابق چین میں سالانہ ایک ملین لڑکیاں ماری جاتی ہیں کیونکہ چین میں لڑکے کو بڑھا پے کے لئے انشورنس سمجھا جاتا ہے اور لڑکا ماں باپ کی خدمت کرتا ہے ۔ چینی کسان ’’لڑکیوں کو چاول میں کیڑ ے سمجھتے تھے۔چین نے سختی سے الٹراسائونڈپر پا بندی لگائی لیکن دیہاتوں میں چوری چھپی بھاری رقومات دے کے اس ٹیسٹ کے ذریعے بچے کی جنس کا پتہ کیا جاتا ہے ،جب کہ چین کے بانی ماوزے تنگ نے بچوں کو قتل کرنے سے روکنے کے لئے کہا تھا کہ ’’ ایک شخص اگر ایک منہ لے کے پیدا ہوتا ہے تو اس کے دو ہاتھ بھی ہیں‘‘ چین میں  111 ملین مردوں کے لئے اب بیویاں میسر نہیں ہیں۔
ہندوستان میں لڑکی کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کے ذہن میں اس کی دو وجوہات ہیں: (ا)- لڑکی دوسرے گھر میں جاتی ہے وہ ماں باپ کی خدمت بڑھا پے میں نہیں کرتی ہے ا ور دوسری بڑی وجہ جہیز ہے جس کی وجہ سے لڑکی کو مارا جاتا ہے۔رتلام مدھیہ پردیش میں کر سچن مشنری ہسپتال کے بیک یارڑ میں 390 لڑکیوں کی لاشیں پائی گئیں جو کہبچیاں تھیں۔ہندوستان کے بہت سے دیہاتوں میں 2000 لڑکوں کے مقابلے میں 59 لڑکیاں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف راجستھان کے جے پور شہر میں سالانہ  3500 لڑکیاں مادر شکم میں ماری جاتی ہیں۔ تامل ناڈو میں1993ء میں صرف ایک دیہات میں196 لڑکیاں ماری گئیں۔ Unicef کے مطابق 1984ء میں ممبئی میں جواستقاطِ حمل ہوئے ان کی تعداد 8000 تھی جن میں 7999 لڑکیاں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنس کی جانچ پڑتال منافع بخش کاروبار بن گیا۔
یہی نہیں بلکہ پنجاب اور ہریانہ میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد 15% فی صد کم ہے۔ جموں خطے میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہیں ۔جموں اور سرینگر میں حال ہی میں الٹراسائونڈکے کلینک بند کر دیئے گئے ۔ یورپ میں ڈاکٹر معائینے کے دوران بچے کے جنس کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے یہاں بعض کلینک والے اور چند ایک فرض ناشناس ڈاکٹر اِس گھناونے دھندے میں شریک رہ کر صرف پیسے کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور اِن کی وجہ سے تمام ڈاکٹروں اور کلینکوں کو بھی سزا بھگتنی پڑھتی ہیں۔
جوہن تھر لکھتے ہیں کہ ’’ ہندوستان کے دیہاتی علاقوں میں لڑکی کو قتل کرنا صدیوں پرانی روایت ہے اور لڑکی کو قتل کرنا کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ فلسطین میں مئی 2010ء میںا یک آدمی نے اپنی بیوی کو اس لئے قتل کیا کیونکہ اُس کی پیٹ میں دوسری لڑکی پل رہی تھی جبکہ اُس سے پہلے اُس کے تین لڑکے اور ایک لڑکی تھی مگر اُس کے بھائی کے 9 لڑکے تھے اِس لئے حسد کی وجہ سے سے ہی اپنی بیوی اور شکم میں پل رہی بچی کو قتل کر دیا۔ Marina Porras اپنی کتاب Female infantcides and foeticide   لڑکیوں کو مارنے کی وجہ کے بارے میں لکھتی ہے۔ ’’ لڑکیوں کو قتل کرنے کی شعوری وجہ لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کو فوقیت دینا اور معاشرے میں لڑکی کی حیثیت لڑکوں سے کم درجہ قرار دی ہے۔
 "Female infanticide is the intentional killing of baby girl due to the prefrence for male babies and from the low value associated with the birth of females".
صرف چین اور ہندوستان کے سماج کی بات نہیں جو ترقی یا فتہ نہیں ہے بلکہ 300 ایسے کیس امریکہ اور برطانیہ میں ’’پیدا ہو نے والے بچے کو قتل کرنا‘‘ کے تحت رجسٹر کئے گئے لیکن المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی عورت ایک رات سے زیادہ اس جرم میں جیل میں نہیں رہی ۔یہاں پر بچوں کو قتل کرنے کی وجہ ان کی مائیں یہ بتاتی ہیں ’’کہ ایک تو ہم کم عمر ہیں ،غریب ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں ۔اس کے علاوہ ہم سماج میں Isolated ہیں یعنی یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونے والے بچے کو اس لئے قتل کیا جاتا ہے کیونکہ قتل کرنے والی مائیں شادی کے بغیر بچوںکو پیدا کرتی ہیں۔
ان حالات میں جب کہ صدیوں سے عورت کو مغرب میں شیطان کا جال اور آدھا انسان اور جانور اور غلام کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ ربِ قدوس نے قران کی تعلیمات کے مطابق عورت اور مرد کو انسانیت کا ایک پہلو کے طور پر یعنی مرد اور عورت انسانی فطرت کے مطابق برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ابتدائی مغربی تہذیب میں عورت کو پورے طور پر انسان سمجھتے ہی نہیں تھے ۔ہمارے آقا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400سال پہلے جو صالح انقلاب لایا اُس میں عورت کو نہ صرف مکمل انسان کا درجہ دیا گیا اور عورت کو ماں بہن بیٹی بیوی اور دوسرے رشتوں کے تقدس کی پہچان کرائی۔ رب کریم نے فرمایا: اے انسان ہم نے تجھے ایک جوڑے سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا اور تمہاری پہچان کرائی اور تم میں سے باعزت وہ ہے جو پرہیز گار ہو۔ (القرآن) ۔قرآن مجید کی اِس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے حقوق قدرتی طور برابر ہیں۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے تمہیں ایک روح سے پیدا کیا اور پھر تم ہی میں سے جوڑے جوڑے بنائے اور پھر ان ہی میں بہت سارے لوگوں کو پیدا کیا مرد اور عورت کی صورت میں اور پھر پوری دنیا میں پھیلائے ‘‘۔اس آیت سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ رب کریم نے مرد اور عورت کے بارے میں صاف فرمایاہے کہ انسانیت کے حوالے سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے اور عورت مرد کے برابر انسانیت کا درجہ رکھتی ہے۔ عرب چونکہ ریگستان تھا ،پانی کی شدید کمی تھی ،زندگی بہت سخت تھی ،خود کو پالنا بہت بڑا مشکل تھا ۔اس لئے غربت کے ہاتھوں وہ لڑکیوں کو زندہ زمین میں دفن کرتے تھے۔ خدا وند کریم نے لڑکی کی پیدائش کو ایک خوشی کی خبر سے تعبیر کیا کیونکہ خدا فرماتا ہے: ’’جب اُ سے اچھی خبر بیوی کے ہاں لڑکی کی پیدائش کی دی جاتی ہے یعنی اچھی خبر کا مطلب ’’لڑکی کی پیدائش کی ‘‘  تو اس کا چہرہ کالا ہو جاتا اور وہ شرمسار ہو جاتا تھا اور وہ اس خبر کو چھپاتا تھا ،لوگوں کو نہیں بتا تا تھا کہ میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے کیونکہ وہ شرم محسوس کرتا تھا کیا وہ اس لڑکی کو زندہ زمین میں دفن کر ے گا۔
مغرب ،جہاں کی عورت کو آزاد عورت سے ہم تعبیر کرتے ہیں ،آج بھی اگر وہاںکے معاشرے کاگہری نظروں سے مطالعہ کریں تو دیکھیں بہت سارے ملکوں میں عورت کو کوٹھے پر بٹھا کر اُ سے جسم فروشی کی اجازت دے کر حکومت اُن سے ٹیکس بھی وصول کرتی ہے۔ شادی کا بندھن مغرب میں کھیل تماشہ بن چکا ہے ۔مغرب میںعورت کو انسان کا درجہ 18 ویں صدی میں ملا جبکہ اسلام میں عورت کو 1400 سو سال پہلے مرد کے برابر رب قدوس کی تخلیق بتا یا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار لڑکیوں کی اچھی پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت دی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم صلعم کے پیرو کاروں کے گھروں میں لڑکیوں کو پیدائش سے پہلے لوگ قتل کیوں کرنے لگے؟ اس کی وجوہات ہمیں تلاش کرنی چاہئے۔
کشمیر میں بہت سارے گھرانوں میں لڑکیوں کے ساتھ لڑکوں کے بجائے پالنے پوسنے میں تفریق کی جاتی ہے۔لڑکوں کو تعلیم ،کھانے پینے ،پہنائوے اور آزادی کے حوالے سے لڑکی کے مقابلے میں ترجیح دی جاتی ہے جبکہ عام طور پر لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں نہ صرف گھر کا زیادہ کام کاج کرتی ہیں بلکہ اگر چھوٹے بہن بھائی ہوں ،ان کو پالنے کا زیادہ تر بوجھ بڑی بہن پر ہی ہوتا ہے ۔آج بھی شہر سے باہر اکثر کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا جاتاہے ۔آپ میوہ باغات میں چلیں ،کھیتوں میں جائیں ،سبزی پھلواڑیوں میں جائیں تو آپ کی مردوں کے شانہ بشانہ چھوٹی لڑکی سے بوڑھی عورت تک کام کرتے ہوئے دکھائی دے گی ۔ اس سب کے باوجود دختر کشی کا معاملہ بہت ہی زیادہ بھیا نک اور اس معاشرے کے لئے تباہی کا باعث ہے ۔ ہمیں اس کی وجوہات تلاش کرنی ہوگی۔ معاشرے کے نام نہاد کرتا دھرتا ئوں کی نصیحتوں یا واعظ خوانی سے اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ نصیحتوں اور وعظ سے کوئی مسئلہ حل ہو جاتا تو مسئلہ ہی کیوں پیدا ہو جاتا؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑکی کی پیدائش ایک اچھی خبر ہے ۔میرے نزدیک اس کی وجہ نسلِ آدم کو آگے بڑھا نا ہے۔ اگر لڑکی نہ ہو تو ماں بہن بیٹی بیوی کون بنے گی؟ لڑکی کی ہی وجہ سے حضرت آدم کی نسل آگے بڑھ جاتی ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ چونکہ پیدا ہونے والی لڑکی کل کسی کی ماں کسی کی بہن کسی کی بیٹی بن جاتی ہے اور یہی عورت ماں بن کر بڑے بڑے ولیوں ، اولیاء ، دانشوروں محد ثیں، سکالروں کو جنم دے کر کائنات کی بہتری کا ذریعہ بنتی ہے۔ کتنے ظالم اور خبیث ہیں وہ لوگ جو لڑکی کو پیدائش سے پہلے ہی شکمِ مادر میں قتل کر دیتے ہیں ۔یہ لوگ صرف ایک لڑکی کو قتل نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ انسانی ارتقاء کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ،کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کل اسی قتل کی گئی لڑکی کے بطن سے کوئی بہت بڑا ڈاکٹر، فلا سفر، سائنسداں، انجینئر، عالم یا ایک اچھا انسان پیدا ہوتا۔
ہمیں دختر کشی کی وجوہات کو تلاش کرنا چاہئے ،مثلاًہمارے معاشرے میں :
(۱)-تعلیم روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہے، سرکاری سکولوں کا معیار بہت گرچکا ہے ۔جس کی وجہ سے لوگ پرائیوٹ سکولوں میں بچوں اور بچیوں کو تعلیم پڑھا نے پر فوقیت دیتے ہیں۔
(۲)- لڑکی پراکثر گھرانوں میں چونکہ لڑکے کو فوقیت دی جاتی ہے اور اُ سے بڑھاپے کا سہارا سمجھا جاتا ہے اور اس لئے لڑکی کے بجائے لڑکے کو تعلیم دینے پر ترجیح دی جاتی ہے۔
 (۳)- معا شرے میں سب سے بڑی لعنت لڑکی کی شادی ہے کہ جو اس کے ماں باپ کے لئے بھاری بھرکم بوجھ ہے۔واز وان اور دوسری بدعات و رسومات پر لاکھوں روپیہ لڑکی کی شادی پر خرچ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب لوگوں کے لئے لڑکی کو بیانا بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیاں M.A. کر کے بھی گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں کیونکہ أن کے ماں باپ کے پاس لڑکیوںکے شادی کے اخراجات نہیں ہے ، بہت سارے لوگ ملازمت کرنے والی بیوی اور بہو ڈھونڈتے ہیں۔ لوگ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی جہیز اور لڑکی کے اخراجات کے بارے میں سوچ کر کا پنے لگتے ہیں کہ پتہ نہیں شادی کے بعد بھی ہماری لڑکی آباد ہوگی کہ نہیں۔ اس وجہ سے بھی بہت سارے بد بخت لڑکی کو مادرِ شکم میں ہی ہلاک کر دیتے ہیں۔
(۴) - لڑکی کو معاشرے میں لڑکوں جیسا مقام دینے کے لئے بہت ضروری ہے کہ سماج میں لڑکی کو لڑکے سے کم ترنہ سمجھا جائے اور لڑکی کے لئے معاشرے میں تحفظ کا احساس پیدا کیا جائے۔
(۵) - عورت کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مختلف فیلڈ میں مثلاََ سائنس ، میڈیکل اور تعلیم میں زیادہ سے زیادہ کا میابیاں حاصل کریں۔ اس حوالے سے لڑکیوں کیلئے میڈیکل تعلیم اور سائنس میں لڑکوں کے مقابل میں نمبروں میں رعایت دی جائے۔
(۶) - لوگوں کے ذہن بدلنے کے لئے عورت کی سماج میں عزت اُبھارنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کی جائے۔
(۷)- حکومتیں بنیادی طور پر سوشل اور اکانومی کے لحاظ سے عورت اور بچوں کو تحفظ دیں اور ان کی بہبودی کے لئے مختلف رعایتوں کا اعلان کریں۔
(۸) - جہیز پر سختی سے پانبدی لگائی جائے اور واز ہ وان کو محدود کیا جائے بلکہ اس بدعت پر پا بندی لگائی جائے ۔
(۹)- مذہبی سکالر اور علماء اسلام میں عورت کے اونچے درجے کے بارے میں زوردار اورمؤثر تبلیغ کریں۔
بنیادی طور پر معاشرے میں ہر آدمی اپنا یہ فرض بنالے کہ کسی بھی صورت میں ہم سب عورت کے خلاف کوئی بھی نسلی امتیاز نہ برتنے ددیںگے ۔
---------------------------------
(نوٹ:-مضمون نگار ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی کے چیئرمین ہے۔)

Thursday, May 1, 2014 0 comments

دور جدید کے منافق

کسی زمانے میں ایک گانا مقبول ہوا تھا کہ "میرا جوتا ہے جاپانی ، پتلوں انگلستانی ،سر پہ لال ٹوپی روسی، پھر بھی دل ہے ہندستانی ۔۔۔ "  خیر وہ صاحب تو شغل لگا کر چلے گئے اسے کیا پتا تھا کہ عشروں بعد روئے زمیں پہ ایسی بھی مخلوق آنے والی ہے جس کے پیٹ میں امریکہ اور یورپ کی "سامراج" کا نوالہ ہوگا، جسم پہ اٹالین کوٹ ہوگا مگر ان کا دل پھر بھی کارل مارکس کی محبت میں دہڑ رہا ہو گا ۔۔۔۔ المھم اس مخلوق کو آک کل سیکیولر کہتے ہیں اور وہ ہر اس خطے میں پائی جاتی ہے جہاں لوگ بھوک اور افلاس سے تنگ آکر اپنا نظریہ انقلاب تو کیا اپنا دین ایمان بھی بیچ دیتے ہیں، یہاں بھی ایسے ننگے اور بھوکے افراد کی کمی نہیں ہے ۔ بقول ان کے سیکولرازم تمام مذاہب سے لاتعلقی اور غیر جانبدار لادینت کا نام ہے لیکن یہ اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کے مذہبی پیشواؤں، رسوم و رواج اور عقیدوں کا بیحد احترام ضروری ہے مگر سیکیولر ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ اسلام کے بارے ہرزہ سرائی کی جائے۔ کہیں اگر مسلمان اپنی زمین پہ قابض قوتوں سے جہاد کر رہے ہوں انہیں دہشت گرد جتلایا جائے۔ ان کے مطابق نصابی کتابوں میں صلاح الیدین ایوبی اور ٹیپو سلطان جیسے مجاہدین ملت پر مضامین دہشت گردی کا فروغ ہیں مگر چی گویرا ، بھگت سنگھ یا اسٹالن کی تعریف انسانیت کی اعلی ظرفی ہے۔ یہ فلسطین ، افغانستان، برما، کشمیر سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام پر تو مرجانہ خاموشی اختیار کیئے رکھتے ہیں مگر مسلمان کے ہاتھوں کوئی دل آزاری کرنے والا گستاخ قرآن یا رسالت مارا جائے تو ان کے سروں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے ، بلکہ ان کے عقیدے کے مطابق امریکی ، نیٹو فورسز اور ڈرون کے ہاتھوں مرنے والے مسلمان شہید ہی نہیں لیکن ہیں ، ہاں نبی اکرم صلی اللہ وسلم کی گستاخی والے قانون کا مذاق اڑانے والا سلمان تاثیر اور پاکستانی جیل میں قتل ہونے والا بھارتی دہشت گرد سربھجیت سنگھ ہی اصلی "شہید" ہیں۔  مسلمان ممالک اور معاشروں میں خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی تو ہر طبقہ کرتا رہتا ہے ، ان میں مذہبی اور سیاسی جماعتیں  سب شامل رہتی ہیں تاکہ حکمران قوتوں کو اصلاح کی دعوت دی جائے کی ان مسائل پر توجہ دی جائے۔ مگر سیکیولر افراد ان کمزوریوں اور خرابیوں کا فائدہ اٹھا کر اسلام اور مسلمانون کی ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے رہتے ۔   حالانکہ  سیاسی اور سماجی برائیاں ہر معاشرے کا حصہ ہیں ، چاہے وہ وہ ترقی تافتہ مغرب ہو ، یا ترقی پذیر مشرق۔ ایک سیدہی سی مثال دے کہ بتاتا ہوں کہ یوں تو عورتوں پہ تشدد ہمارے معاشرے کا ایک منفی پہلو رہا ہے جسے ہر کوئی بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور یہ تمام سیکیولر حضرات کا دل پسند موضوع رہا ہے جسے خوب اچھالا جاتا ہے، اب یہاں دیکھیں کہ صرف  2003میں محظ امریکہ میں 00000  عورتیں غیرت کے نام پہ قتل کی گئیں ، جی جناب امریکہ میں اور یہ ان کے اعداد شمارات ہیں یقین نہیں تو آپ ان کے National Organization for Women (NOW)  کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھ لیں۔ اگر یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا تو صاحبان کا غم کے مارے پتہ نہیں کیا حال ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور اسلام ان کا آسان اور دل پسندیدہ ٹارگیٹ ہے۔

ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔  
خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم

ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔    خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم
ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔    خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔    خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم ISO-9001 کا سرٹیفکیٹ نہ ہو یا وہ کسی بھی غیر ملکی برانڈ کی وسکی نہ پیتا ہو۔ خود ان کی منطق کی سطع چار طنزیہ سطروں سے آگے جا نہیں پاتی جس سے عام مسلمان پہ اپنی دانشمندی جھاڑتے ہیں مگر جب انہیں  للکارنے والے للکارتے ہیں تو ایسے غائب ہوجاتے جیسے شیر کو دیکھ کر گدہے بھاگ نکلتے ہیں ۔  آپ ٹی وی کی ٹاک شوز میں کے کس طرح یہ لوگ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے معمولی کالم نگاروں کے سامنے بھی ٹک نہیں پاتے حالانکہ یہ افراد دین اسلام کے معمولی سے بھی اسکالر بھی نہیں ہیں۔
 جبکہ ان کے فرنٹ بیک پہ ایک اسکواڈ ہے جسے ہم قوم پرست مانتے ہیں ، ان کا ماننا ہے پاکستان کو توڑا نہیں جا سکتا جب تک کے یہاں نسل پرستی کے نام پر تعصب پرستی نہ کی آگ نہ لگائی جائے اور خوب خون بہایا نہ جائے اور لوگ مسلمانیت بھول کر قومیت پہ نہ آجائیں۔  اسلام کے ساتھ ساتھ پاکستان فوج اور ان سے منسلک ادارے ہوتے ہیں ، بھارت کے گن گانا ان کے عقیدے میں شامل ہے کہ وہ ان کا مددگار اور دوست ملک ہے۔ عشروں سے بڑے ہی جتن کرتے آ رہے ہیں ، بیچاروں سے نہ تو سیاست ہوتی ہے نہ ہی بغاوت۔ ان کے بیک پہ  وہ رافضی پیروکار جو خانہ کعبہ پہ قبضے کے خواب عشروں سے سمائے جی رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے پاکستان نہ صرف عربوں کی مدد کر رہا ہے بلکہ انہیں مہلک ہتھیار دے کر ان کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے رہا۔ ان کا قبلہ ان قبلہ اول ہے نہ قبلہ دوم ان کا قبلہ تہران اور قدس کی طرف ہوتا ہے ان کا خیال ہے ایک نہ ایک دن یا تو ایران یا پھر اسرائیل عربوں کی بچھی کچھی قوت بھی برابر کردیگا یعنی حب علی ہو نہ ہو بغض معاویہ ضرور ہے۔
چوتھے رینک میں وہ لوگ ہیں جن کو ملائوں سے خواب میں ڈر لگتا ہے ، وہ محض اس لیئے نہیں کہ ملا خونخوار ہیں ۔ مگر اپنی حرکتوں سے خود بھی پریشان ہیں کہ ان کے لیئے یہاں اس معاشرے میں کوئی جگہ بن رہی جو ان  الٹ شلٹ بکواس اور الٹی سیدہی حرکتیں برداشت کرے۔ اس طبقہ میں ہر قسم کے مسلم ، غیر مسلم اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں ، یہ ان کی تہہ دل کی خواہش ہے اگلے مورچوں والے کامیاب رہیں تاکہ حق کی ضرب ان تک نہ پہنچ نہ پائے۔ ہر مسلمان کو ایسی قوتوں کی پہچان رکھنی چاہیئے تاکہ سانپ اور ان کی بلوں کا پتہ رہے، نیز ان سے خوفزدہ رہنے کی ضرورت نہیں یہ قرآن میں اللہ تعالی کا سچا وعدہ ہے کہ  "بے شک وہ اللہ کافروں کو گھیرے میں رکھا ہوا ہے ۔" اور "اے نبی ص بیشک تمہارا دشمن ہی بے نشان رہے گا"۔

Wednesday, February 26, 2014 0 comments

قرآن اور ہم

آج ہم قرآن کو کتنا سمجھتے ہیں ، کیا ہمارے لیئے کوئی حجت باقی ہے۔ مولانا ابوالاکلام آزاد نے اپنی "ام الکتاب" کا انتساب کچھہ اس طرح لکھا ہے 
۔۔۔۔
غالبا دسمبر ١٩١٨ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے، مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کل اوڑھے کھڑا تھا۔

آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔
کہاں سے؟
سرحد پار سے۔۔
یہاں کب پہنچے؟
آج شام کو پہنچا میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔ 
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھاکہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔
مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔

١٢ ستمبر سنہ ١٩٣١ء کلکتہ
Monday, January 6, 2014 0 comments

علم دوست لبرلز اور ذاکر حسین

ذاکر حسین لبرل تھا اسی لیئے قتل کردیا گیا؟ جنوری ۲۰۱۳ کو جماعت اسلامی کے ذاکر حسین جو الخدمت فائونڈیشن کے لیئے تعلیمی مینجر تھا، صرف ۳۵ سال کی عمر مار دیا گیا۔ صرف وہ نہیں اس کا ڈرائیور غندل خان بھی جس کے ۳ بچوں میں سے سب سے چھوٹے کی عمر ۱۳ سال تھی۔
لبرلز روتے رہے کہ دہشگردی سے تعلیم تباہ ہو رہی ہے۔ مگر ذاکر حسین کی موت پر کوئی نہیں رویا اس لیئے کہ ذاکر حسین کسی لبرل NGO کے تحت تعلیم عام کرنے لیئے کام نہیں کر رہا تھا۔ اس کی موت سے سال کی انم اور ۴ سال کی ایشال یتیم ہو گئیں۔ کوئی لبرل نہیں رویا  کہ تعلیم کی روشنی پھیلانے والے کی بچیاں بے سہارا ہو گئیں، اس لئے کہ ان بچیوں میں کسی کا نام ملالہ نہیں تھا اور ان کے باپ کی داڑہی تھی جسے دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے۔ اگر یہ بچیاں ملالہ ہوتیں تو کوئی زرداری ان کے سر پر ہاتھ رکھنے پہنچتا اور وائٹ ہائوس ان کی کفالت کی ذمیداری لے لیتا کہ ان کا باپ ایک عظیم ذمیداری نبھاتے ہوئے ماردیا گیا۔
۔۔۔۔
مگر ذاکر حسین لبرل نہیں تھا۔۔۔
Powered by Blogger.
 
;