Thursday, January 5, 2012

پاکستان، روشن خیالی اور اسلام


کچھ دنوں پہلے پاکستان سمیت دنیا بھر میں امریکی قونصل خانوں کی طرف سے ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے دن منانے کی خبریں بازگشت کر رہی تھیں اور یہ سب مغرب و آمریکا کی "روشن خیال" معاشرے کا ایک حصہ ھے۔  ویسے تو پاکستان میں روشن خیالی” کا نعرہ عملاً مشرف کے دور میں 9/11 کے بعد مغربی دنیا سے آنے لگا تو آزاد خیال اونچے طبقے نے تو اسے خوش آمدید کہا ہی پر ساتھہ ساتھہ ان نام نہاد دانشوروں کی بھی قسمت بدل گئی جو اسلام سے پہلے ہی خائف تھے اور سرخ اور پھر فرانسیسی انقلاب کے خواب دیکھہ دیکھہ کر تھک چکے تھے اور اپنی موت آپ ہی مر رہے تھے ان کو  گویہ نئی زندگی مل گئی، پرانے کوٹ پہن کر ننگے اور بھوکے حالوں میں انقلاب کی باتیں کرنے والے یہ لوگ اب غیر ملکی شراب اور بڑی ھوٹلیز میں قیام و طعام اور کانفرنسیں کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ کسی نے خوب کہا کہ اس طبقے کی تو پانچھوں انگلیاں گھی میں تو کیا سرہی کڑاہی میں آ گیا ھے ۔ سونے پہ سہاگہ انہیں ذرائع ابلاغ (Media) کی صورت میں روشن خیالی کی پیھلانے کا ایک ایسا زبردست پلیٹ فارم بھی ملا ہوا ہے جس کی رسائی جھونپڑیوں سے لے کر محلات تک ھے۔ اس طرح روشن خیالی کی عملی تفسیر مختلف صورتوں میں مختلف ذرائع سے عوام پر ظاہر ہونے لگی، چہرے مختلف، موضوعات مختلف لیکن مقصد واحد اور واضح ۔ یعنی مغربی دنیا میں اخلاقی اقدار کو پامال کرنے والا لادینت اورعریانت کا شیطانی سیکیولر (Secular) نظام نافذ کرنا ہے جو مغربی کے استحصالی سرمائیدارانہ نظام کا ایک ہتھیار بھی ھے۔
ویسے عام طور پر روشن خیالی(Enlightenment) جدیدیت کے ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعے کا نام ہے جو 17 ویں اور 18 صدی ویں کے یورپ میں روایت پسندی (Traditionalism) اور کلیسائی استبداد کے ردعمل میں پیدا ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا، جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ تنگ نظر پادریوں نے قدیم یونانی فلسفہ اور عیسائی معتقدات کے امتزاج سے کچھ خود ساختہ نظریات قائم کر رکھے تھے اور ان نظریات کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو وہ مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے تھے، وہ شاہی حکومتوں کے ساتھ گٹھہ جوڑ کر کے انہوں نے ایک ایسا استبدادی نظام قائم کر رکھا تھا جس میں کسی بھی آزاد علمی تحریک کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔
مختصراً جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکن، رینے ڈیکارٹ، تھامس ہوبس وغیرہ کے افکار میں پائی جاتی ہیں جن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربے اور مشاہدے کے ذریعے قابلِ دریافت  ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے ہی رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا کہیں وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربے اور مشاہدے کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے ما بعد الطبیعیاتی مزعومات (metaphysical contentions) اور مذہبی دعوؤں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ ان کسوٹیوں پر پورے نہیں اترتے۔ ڈیکارٹ نے I think therefore I am  "میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں"۔ کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔ جبکہ پاسکل، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ، وسلی، ہیوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لا محدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا۔ یہ افکار عقل پرستی (Rationalism) کہلاتے ہیں اور جدیدیت کی بنیاد ہیں۔  چنانچہ جدیدیت کی تعریف ہی یوں ہوکی کہ "جدیدیت وہ روشن خیالی اور انسان دوستی ہے جو کسی بھی ہستی کی بالادستی اور روایت کو مسترد کرتی ہے اور صرف عقل اور سائنسی علوم کو ہی تسلیم کرتی ہے۔ یہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ سچائی اور معنی کا واحد منبع خود مختار فرد کی 'عقل' ہے"۔  
مغرب میں تو یہ روشن خیالی انسانیت، آزادی، جھموریت اور خوشحالی کے نام پر ہر جگہ مختلف طریق سے نافذ ہے پرمغرب یہ نظام پوری دنیا میں مسلط کرنے کا خواھشمند ہے مگر دیکھیں تو یہ اس لیئے نہیں کہ انہیں دینا میں غریبوں یا مظلوموں طبقوں کا دکھہ درد ھے یا آمریکا اور مغرب واقعی دنیا کو ایک جنت بنانا چاہتے ہیں۔ مگر نہیں ان کے اپنے ہاں تو کتوں، مکھیوں جانوروں کے بھی حقوق ہیں، ان کو بھی مارنا ایک جرم اور قابل نفرت عمل ھے جیسا کہ کچھہ عرصہ پہلے آمریکی صدر Bark Obama کو اس وقت شدید تنقید کا سامنہ کرنا پڑا تھا جب اس نے ایک انٹرویو کے دوران تنگ کرنی والی مکھی کو ماردیا تھا حتہ کہ انہیں اس فعل پہ معذرت بھی کرنی پڑی، مگر وہاں قریب ایک سو سال سے زائد عرصے سے نہتے فلسطینیوں کی خون کی کوئی قدر نہیں جو اپنی ہی زمین پہ باہر سے آئے لوگوں کے ہاتھوں اپنے جوانوں اور بچوں کے لاش اٹھائے پھرتے ہیں، نہ آج تک ان کو جاپان پر ایٹمی بم نہ گرانے کا افسوس ہے، نہ ویٹنام، کوریا اورلاطینی امریکا میں لاکھوں لوگوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے افسوس ہے نہ ہی اس دور جدید میں عراق، افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے ان کے ماتھے پہ کوئی شکن پڑی ہے۔ آمریکا اور یورپ مسلمان ملکوں میں سیاسی جمود کے شکار معاشروں کی بے چینی کا فائدہ اٹھا کرکے مصنوعی انقلاب برپا کرنے کے لیئے کروڑوں اور اربوں ڈالر تو پھونک دیتے ہیں مگر ھر سال افریکہ کی صحرائوں میں بھوک اور پیاس کی شدت سے مرنے والے لاکھوں لوگوں کی ھلاکت پر انہیں کوئی افسوس نہیں حتی کہ ایسی خبریں ان کی نام نھاد ترقی پسند میڈیا بھی نہیں چھاپی جاتی ہیں، یہ توبس ہاتھی والے دانت ہیں۔
 درحقیقت ان کے پس پردہ عزائم یہ ہیں کہ تیسری دنیا میں بالعموم اوربالخصوص اسلامی ممالک کو کمزور کیا جائے تاکہ وہ کمزور حکومتوں اپنے مضبوط عالمی معاشی نظام میں جکڑلیں جو کہ استحصالی بنیاد پہ استوارھے اور اس عالمی معاشی نظام کی رسیاں مغربی طاقتوں کے پاس ہیں، یوں ایک جدید انداز سے دوسرے لوگوں کی وسائل پہ قبضہ کرنا ھے۔ اسی سلسلے میں انہیں جو رکاوٹیں درپیش آرہی ہیں ان میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلام دنیا ھے، جسے تو نہ یہ تلوار سے شکست دے سکے ہیں، نہ ان کے مذھبی مشنریاں کچھہ کر سکیں ہیں، نہ ان کی فلاسافی کچھہ کام آرہی ہے، نہ ہی سائنس ان کے کچھہ کام آ رہا ہیں۔  بلکہ اسلامی نظام میں امن، انصاف اور انسانی اقدار کا جامع اور مربوط نظام دیکھہ کر انہیں اپنی صدیوں سے تراشے ھوئے روشن خیال فلسفے اور اپنا عالمی معاشی اور سیاسی استحصالانہ نظام کو خطرہ محسوس ہو رہا ھے۔ کیونکہ اسلام عملا انصاف، امن کا مذھب اور وہ کسی کی بھی استحصال کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر ان کے ساتھہ یہ مشکل ہے کہ وہ اسلام کا پیچھہ افریکا کی طرح چھوڑ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ خطہ تیل اور معدنی ذخائر سے مالامال ہے جس سے مغربی دنیا کی رال ٹپک رہی ھے، ان کی بھرپور کوششیں ہیں کہ کسی طرح سے ان لوگوں کو زیر کرکے ان کے وسائل پہ قبضہ کیا جائے، چاہے وہاں جنگ کی جائے یا وہاں خانہ جنگی کرائی جائے یا اپنی نام نہاد نظام کے ذریعےایسی حکومتیں لائی جائیں جو کوئی نہ تجربہ رکھتی ہوں نہ کوئی جرئت، تاکہ ان کو مفادات حاصل کرنے میں کسی مزاحمت کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔ اسی ایجنڈا کے تحت پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک مغربی کے طرف جنگ و جدل جاری ھے تو دوسری طرف کئی ممالک میں خانہ جنگی کرائی جا رہی ھے اور ساتھہ اہاں پہ روشن خیال عقائد کا زبردست مہم جاری ھے۔ مطلب یہ ایک تیر سے دو شکار یعنی اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کے ساتھہ ان کے وسائل پہ ایک جدید طریقے سے قابض ہونا۔  معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد رح نے اس نام نہاد جدید روشن خیالی کی مزید حقائق یوں بیان کی کہ: 
" اس وقت پوری دنیا اور باخصوص پاکستان، جس میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی جیسی اصطلاحات کا بہت غلغلہ ہے، اور ہمارے حکمران امریکہ کو بار بار یہ یقین دہانی کرانے میں مصروف ہیں کہ پاکستان آپ کے روشن خیال اور اعتدال پسند ایجنڈے پر گامزن ہے اور عنقریب ہمارا معاشرہ روشن خیالی کی کامل تصویر ہوگا- اس صورت حال میں ضروری ہے کہ سمجھا جائے کہ امریکی ایجنڈے کی حقیقت اور اس کا ہدف کیا ہے؟ امریکہ کا یہ روشن خیل ایجنڈا مغرب میں پوری طرح حاوی ہے مگر ابھی پوری نوع انسان؛ پر اس کا غلبہ نہیں ہوا ۔۔۔
روشن خیال ایجنڈے کی وجہ سے سماجی نظام میں پردے اور عزت و عصمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سماجی سطح پر یہ ایجنڈا کم از کم آدھی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے البتہ ایشیا اور افریکہ میں ابھی شرم و حیا کا کچھ عنصر باقی ہے اورخاندانی نطام بھی کسی حد تک برقرار ہے، امریکہ اور مغرب کی جانب سے ایک زبردست تحریک روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے عنوان سے چلائی جارہی ہے-  تاکہ یہ بھی ہم جیسے ہوجائيں اور بلکہ اس حد تک لبرل اور روشن خیال ہوجائيں کہ بیوی زنا کررہی ہے تو کرتی رہی یہ اس کی مرضی ہے- بیٹا اور بیٹی آوارہ ہیں تو مجھے کیا- اگرچہ مسلمان ملکوں کا ایلیٹ (Elite)  طبقہ اس رنگ میں رنگا جاچکا ہے- یعنی بالائی طبقے کی اکثریت بے پردگي، فحاشی، عریانی اور آزاد جنس پرستی اختیار کرچکی ہے-
روشن خیالی کے امریکی ایجنڈے میں آپ جس طرح چاہیں اپنی جنسی خواہش کو پورا کریں، بس دونوں طرف کی رضامندی مطلوب ہے، زنا بالجبر قانون کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے، لیکن زنابالرضا سرے سے کوئی جرم نہیں- اس روشن خیالی ایجنڈے کے نتیجے میں فیملی سسٹم برباد ہوگيا، والدین بچوں کو بلوغت کی قانونی عمر کے بعد گھر سے نکال دیتے ہیں- چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، خود جاکر کماؤ اور کھاؤ- اگر ہم پر کچھ ذمہ داری تھی تو بس ایک خاص عمر تک تھی- ظاہر ہے پھر اولاد کو بھی ماں اور باپ کی کیا فکر ہوگی- چنانچہ یورپ اور امریکہ کے معاشروں میں بڑھاپے میں ماں باپ کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑدیا جاتاہے"-

ڈاکٹر اسرار احمد  مزید فرماتے ہیں  کہ مغرب نے اپنے نظریات کے نفاذ کے لیے 1944 میں قاہرہ میں اور پھر اگلے سال بیجنگ میں بہبود آبادی کانفرنس منعقد کی تھی جس کا ایجنڈا روشن خیالی پر مبنی تھا یعنی "عورت کی آزادی"، اس کے بعد جون 2000 میں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس ہوئي جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ "طوائفانہ زندگی (Prostitution) " کو قابل احترام پیشہ سمجھا جائے دوسرے نمبر پر ہم جنس پرستی چاہے وہ دو عورتوں کے درمیان ہو اور چاہے وہ دو مردوں کے درمیان ہو اس    (Normal Orientation)کو برا نہ سمجھا جائے ۔۔۔  تو یہ ہی امریکہ کا وہ روشن خیال ایجنڈا جس کو سامنے لایا جارہا ہے اور اس کو سوشل انجنیئرنگ جیسا خوبصورت نام دیا گیا ہے، یعنی ہمیں دنیا کے سماجی نظام کی ایک نئی تعمیر کرنی ہے اور  اس پروگرام کو یونائیٹیڈ نیشن کی جنرل اسبلی نے منظور کیا ہے اور اس پر دستخط کرنے والے ممالک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے۔۔۔ "۔
۔ ۔ ۔ ۔
اس نام نہاد روشن خیالی کو لانے کے لیئے، مغرب کو اسلام کو دھشت گرد ثابت کرنا ھے، تاکہ ان کو اپنے روشن خیال ایجنڈا کا قائل کرسکے اور انہیں انسانیت کے حل یعنی اسلامی نظام  سے دور رکھا جا ئے،  حتہ کہ مسلمانوں کو اسلام ہی سے بدظن کیا جا ئے۔ کیونکہ مغرب اسلام کو نہ تو تلوار سے جھکا سکا ہے، نہ ان کے مذھبی مشنریاں اور ان کی صدیوں پرانی فلاسافی ہی کارگرہوئے ہیں، نہ ہی سائنس ان کے کچھہ کام آ رہا ہے۔  بلکہ اسلامی نظام میں امن، انصاف اور انسانی اقدار کا جامع اور مربوط نظام دیکھہ کر انہیں اپنی صدیوں سے تراشے ھوئے روشن خیال فلسفے اور اپنا عالمی معاشی اور سیاسی استحصالانہ نظام کو خطرہ محسوس ہو رہا ھے۔ کیونکہ اسلام عملا انصاف، امن کا مذھب اور وہ کسی کی بھی استحصال کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے اسلام سے ان کی صدیاں پرانی دشمنی چلتی آ رہی ہے تو ساتھہ میں وہ بدلے چکانے کا بھی انہیں زبردست موقع ملا ھے۔
آمریکا اور مغرب کے ساتھہ یہ مشکل بھی ہے کہ وہ افریکا اور لاطینی آمریکا کے غریب ممالک کی طرح اسلام دنیا کا پیچھہ چھوڑ بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ یہ خطے تیل اور معدنی ذخائر سے مالامال ہے جس سے مغربی دنیا کی رال ٹپک رہی ھے، ان کی بھرپور کوششیں ہیں کہ کسی طرح سے ان لوگوں کو زیر کرکے ان کے وسائل پہ قبضہ کیا جائے، چاہے وہاں بغاوت کرائی جائے یا خانہ جنگی کرائی جائے یا مجبورا جنگ کی جائے، تاکہ ایسی حکومتیں لائی جائیں جو ان کے خلاف کوئی جرئت نہ رکھتی ہوں تاکہ ان کو مفادات حاصل کرنے میں کسی مزاحمت کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔ اسی ایجنڈا کے تحت پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک پر مغربی دنیا  کی طرف سے سیاسی، معاشی اور عسکری جنگ جاری ھے، تو دوسری پاکستان سمیت کئی ممالک میں خانہ جنگی کرائی جا رہی ھے اور ساتھہ وہاں روشن خیال عقائد کا بھی زبردست مہم جاری رکھا ہوا ھے۔ ان سب چیزوں کا مطلب یہ ہے ایک تیر سے دو شکار یعنی مسلمانوں کی تباہی اور اسلام کی بدنامی کے ساتھہ ان کے وسائل پہ ایک جدید طریقے سے قابض ہونا۔ 
دور جدید میں اسلام پہ سب سے بڑا حملہ 9/11  سے ہوا جہاں سے مسلمانوں،اور مظلوم فلسطینیوں کو بدنام کیا گیا اس کے بعد عراق، افغانستان، سوڈان اور پھر صومالیہ اور اب لیبا پر جھوٹے عذر سے حملے کرکے وہاں حکومتیں گرائی گئیں لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا، اور اس کے بعد پاکستان، یمن سمیت دیگرعرب ممالک اور دنیا بھر میں طالبان، القاعدہ اور اسلامک گروپس کی نام سے ذیلی تنظیموں کو پیدا کرکے Operate کیا جا رہا جس سے مسلم معاشروں میں بیگناہ لوگوں کا قتل عام کروایا جا رہا ہے، ایسی تحریکوں کو تقویت دینے کے لیئے بیگناہ لوگوں پر ڈرون حملے کیئے جارہے ہیں تاکہ ان کے پیدا کردہ دھشت گرد کو ریاستوں کے خلاف خانہ جنگی میں آکسیجن مل سکے، جبکہ مساجد میں بم دھماکے کروائے جا رہے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے تاکہ حتہ مسلمانوں کو بھی یہ باور کرایا جائے کہ اسلام ایک دھشتگرد مذھب ہے جو تلوار زور پہ ہی قائم ہوا تھا، مگر ھمارے پاس تمھارے دکھہ دردوں کا علاج "روشن خیالی" میں ھے - اس طرح کے حربے امریکا، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے لیئے نئے نہیں 9/11 کی حقیقت اور اسرائیل کو مجرم قرار دینے پر Richard Falk  کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمیشن سے برطرف کروایا گیا۔ آپ اس طرح کی رونگٹے کھڑا کردینی والی کہانیاں امریکی صحافی اور دانشور Willam Blum  کی کتابوں “Rough State”  اور "Killing Hope" میں پڑہ سکتے ہیں یا یہ چیزیں آپ کو Prof. Noam Chomsky سمیت کئی آمریکی دانشوروں سے ملیں گی کہ آمریکا دنیا کو اپنے تسلط میں رکھنے کے لیئے کیا گھناوَنے کھیل کھیلتا آ رہا ھے۔
اسلام کو بدنام کرنے کے مہم آمریکا اور اس اتحادی بہت خوش بھی ہیں کیونکہ کہ  جس اسلام کو وہ صدیوں زیر نہ کرسکے اب اسی اسلام کو اسی کے ہی تلوار سے کاٹ رہے ہیں۔ اس جنگ میں دنیا بھر میں ان کی گھڑی ہوئی "نام نہاد جہادی" تنظیموں کے ساتھہ نام نہاد دانشور طبقہ ان کے شانہ بشانہ لڑ رہا ھے۔ اس صورتحال کو بہت عرصہ پہلے ڈاکٹر اسرار نے یوں بیان کیا کہ:
"حال ہی میں رینڈ کارپوریشن (ایک یہودی تنظیم) جوکہ امریکی تھنک ٹینک ہے جو اپنی سفارشات امریکی محکمہ دفاع کو بھی دیتا ہے، اس نے حال ہی میں چند سفارشات دی ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا کہ:
1.       وہ افراد جو اسلام کو مذھب نہیں بلکہ دین ( یعنی نظام حیات) سمجھتے ہیں وہ بنیاد پرست (fundamentalists) ہیں اور ہمارے اولین دشمن ہیں- انہیں ہر صورت میں ختم کرنا چاہیے-  
2.       اور وہ روایت پسند علماء  جو مساجد میں امامت اور خطابت کرتے ہیں انہیں فرقہ وارانہ اختلافات میں الجھا رکھنا چاہیے کیونکہ یہ کبھی بھی بنیاد پرستوں (fundamentalists) سے مل کر ہمارے لیے خطرے کا مؤجب بن سکتے ہیں-
3.       اسلام کی جدید تعبیر کرنے والے modernist  علماء  کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک بھرپور رسائی دی جائے۔
4.       اورsecular  حضرات تو پہلے سے ہی ہمارے ہمنوا ہیں- لہذا بنیاد پرستوں اور روایتی علماء کو ختم کیا جائے اور modernist  علماء اور secular  حضرات کی مدد کی جائے"-
۔ ۔ ۔ ۔
 یوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں انگلی پہ گنے جانے کے لائق نام نہاد دانشوروں اور غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کی ذریعے ذرائع ابلاغ (Media) کی مدد سے اوپر بتائی گئی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشیشں کی جا رہی ہیں۔ حد تو یہ ھے کہ یہ دانشور حضرات George Bush کی ہی طرح اسلام کی تشریح بھی خود کرتے نظر آتے ہیں، اسلام کو اعلی دین اور مذھب بھی جتاتے تو ضرور ہیں مگر اسلامی قوانین پہ عمل کرنے کہ بجائے اسلامی معاشروں میں مغربی ثقافت کو تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ روشن خیالی کو پھیلانے اور اسلامی اقدار کو ختم کرنے لیئے عریانت کو عام Normal تصور کرنے کے لیئے پاکستان سمیت دنیا بحر میں جنسیات (Sex)  پہ کانفرنسیں ہورہی ہیں، فیشن شو کروائے جا رہے ہیں، عریان تصویروں کی نمائشیں ہو رہی ہیں، اسکولوں کی نصاب میں تعلیم جنسیات (Sex Education) کو شامل کروایا جا رہا ھے۔ پارلیمینٹ اور اداروں میں عورتوں کی نمائیندگی مختص کروائی جا رہی ھے جس کی مثال خود یورپ، آمریکا، ھندستان کی نام نہاد جھموریتوں میں بھی نہیں ملتی ھے، ناموس رسالت کے قوانین کو کالا قانون جتایا جا رہا ہے، جہاد کو دھشتگردی قرار دے کر انصاب سے جہاد کی آیتیں مٹائی جا رہی ہیں۔ فرقہ واریت کو ہوا دے کراپنی من گھڑت تصوف اورSecularism   لوریاں سنائی جا رہی ہیں۔ اور اب ہم جنس پرست مرد و عورتوں کے دن منائے جا رہے ہیں، یہ سب اسی "روشن خیال" ایجنڈا کی کڑیاں ہیں جسے ہم سب کو جاننا ضروری ھے تاکہ ہم انشار اور تباہی سے بچ سکیں۔ اللہ تعالی اس دین اور ملت کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)

- از قربان بلوچ، دسمبر ۲۰۱۰،  مدینہ منورہ

حوالاجات اور :
1.        آمریکا کے روشن خیال ایجنڈا کی حقیقت  ۔(خطاب) از ڈاکٹر اسرار احمد رح
2.        “مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام” . سید سعادت اللہ حسینی (ھندستان(

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;