Thursday, April 12, 2012

مغرب اخلاقی تباہی کی دہلیز پر

پاکستان میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کا معاملہ عالمی میڈیا میں خاصا عروج پر پہنچا دیا جاتا ہے اس میں شک نہیں کہ یہ معاملات نہ صرف وطن عزیز بلکہ تمام قوم کے لئے انتہائی باعث شرم ہے، لیکن اس سے زیادہ تشویش ناک بات مغرب نوازاین جی اوزکا ان معاملات کو ہائی جیک کرکے حکومت اور وطن عزیز کو بدنام کرنے کی روش ہے۔ پاکستان میں اس قوم کے معاملات صفر اس لئے نظر آتے ہیں کہ یہاں سیاسی طور پر انتہائی بدنامی سے دوچار ہے اصلاح کے تمام پہلو مفقود ہیں اس لئے ان جرائم کا عالمی میڈیا کی زینت بن جانا کسی اچھنبے کی بات نہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب زدہ این جی اوز کا ناجائز طور پر حکومت اور معاشرے کے خلاف پروپیگنڈے کو مغربی حکومتیں جن میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیںمسلم ممالک کے حوالے سے اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے افسوسناک واقعات کا اگر مغربی ممالک کے جنسی توحش اور اخلاقی گراوٹ سے موازنہ کیا جائے تو یہ نہ ہونے کے برابر محسوس ہوں گے۔ اکتوبر 2005ء میں برطانوی اخبارات میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ ’’تین انگریز بہنیں جن کی عمریں 15,13,11برس کی ہیںحاملہ ہوگئیں۔ ڈربی کے علاقے سے تعلق رکھنے والی ان کم سن بہنوں کی تصاویر بھی خاندان کے ساتھ دکھائی گئیں جس میں کوئی مرد موجود نہیں تھا! مصنوعی مسکراہٹوں کے ساتھ ان تصاویر میں کھڑی بن بیاہی کم سن مائوں کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔ یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ مغربی معاشرے میں ماں باپ اس عمر کی اولاد کی تربیت کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ صورتحال ان بڑھتی ہوئی تعداد میں کہیں زیادہ ہے جن کے باپوں کا کوئی پتا نہیں ۔۔۔اسی طرح ایک اور خبر برطانوی اخبار میں شائع ہوئی جس کے مطابق صرف پندرہ برس کے ایک نوجوان لڑکے کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ویسٹ منسٹر لندن کے ایک اسکول کے اس طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے اپنی 28سالہ استانی کے ساتھ جبرازیادتی کی، دانتوں سے اس کے جسم کو کاٹا، اس کے کپڑے پھاڑ دیئے اور اسے قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔
صرف ان دو واقعات سے مغرب میں پھیلی ہوئی جنسی ہوس ناکی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےاس کا سب سے خطرناک پہلویہ ہے کہ بیماری نہ صرف نوجوانوں میں عام ہے بلکہ کم سن بچے بھی اس آفت سے محفوظ نہیں رہے۔ جس معاشرے میں شادی کے مقدس رشتے کی حوصلہ شکنی ہوگی وہاں اس قوم کی شیطانیت کا سر اٹھانا فطری عمل ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے وہ جنسی قراردیتا ہے تاکہ انسان شرعی طریقے سے اپنی جسمانی ضروریات کو پورا کر سکے اور نسل انسانی کا باوقار سلسلہ جاری رہے۔ اللہ رب العزت سورۃ روم میں اس طرح فرماتا ہے ’’ ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازو اجا لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ان فی ذلک لآ یات لقوم یتفکرون (۲۱ روم)‘‘ ترجمہ اور یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم میں سے جو جوڑے بنائے ساتھ رہنے کے لئے اور تمہارے درمیان الفت اور تقرب اور رحمت کو پیدا کیا، بے شک اس میں نشانیاں ہے تدبر کی قوم کے لئے۔
قرآن کریم میں ہمیشہ عظیم معاملات اور امور کے لئے لفظ آیات استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس کلمہ کی قوت کو ظاہر کیا جاسکے۔ مندرجہ بالا آیت میں کلمہ (المودۃ) استعمال زوجین کے جبلی میلان کو ایک دوسرے کے لئے تقرب میں بدل دینے کی جانب اشارہ ہے جبکہ ان آیات میں رحمت سے مرادزوجین کے درمیان ایک دوسرے کے لئے رفاقت اور شفقت کے احساسات کو اجاگر کرنا ہے جس کی روشنی میں وہ مکروات اور ضلالت وگمراہی کے اندھیروں سے بچسکیں۔ بنی نوع انسان پر اللہ رب العزت کا ایک بڑا انعام ہے کہ اس نے انسانوں کے درمیان ازدواجیت کو حلال کیا اور اس کے لئے معظم طریقے کو وضع کیا تاکہ انسان کے درمیان اختلاط نہ ہوسکے۔

زواج یعنی کا بندھن سخت ترین معاہدہ ہے جسے اللہ رب العزت نے عزت واکرام سے تعبیر کیا ہے کیونکہ یہ عقد انسانی ذات اور اس کے نسب سے متعلق ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلمہ میثاق کی تشریح ایک ایسے معاہدے کی شکل میں ہے جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہوتا ہے ’’واذکروا نعمۃ اللہ علیکم ومیثاقہ الذی واثقکم بہ۔۔۔ (المائدۃ)‘‘ اسی طرح کلمہ ’’الغلیظ‘‘ بھی نکاح کے معاملات کے لئے استعمال کیا گیا ہے یہاں غلیظ کے معنی’’سخت‘‘ کے ہیں، یعنی سخت معاہدہ جو اللہ رب العزت نے اپنے ابنیائے کرام سے بھی کیا۔وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا، (النساء  ۲۱)‘‘ نکاح انسانیت کی تاریخ میں اولاد کی پیدائش اور ارتقاء نسل کا بہترین طریقہ قراردیا گیا اور اس کا احساس مکمل طور پر شرف انسانیت کے اندر رکھ دیا گیا، ماں باپ کی طبعی الفت کا تقاضا بھی نکاح جیسے عظیم الشان معاہدے میں پنہاں ہے۔ اولاد کی تربیت اور نشود نماکے لئے بھی اس کا کردار اساسی ہے۔ اسی وجہ سے جنسی گناہ کے احساس سے نجات حاصل کرنے کے لئے نکاح کو لازم قراردیا گیا کیونکہ گناہ کے احساس کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوں کے لئے اولاد کی تربیت کا فریضہ محال ہوجاتا ہے اسی لئے سب سے پہلے عفت کے معاملے میں اپنے نفس کو حرام کاری سے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلے میں نکاح ایک ایسے قلعے کا کردار ادا کرتا ہے جوفوا حش اور جنسی نے راہ روی سے انسان کو محفوظ بناتا ہے۔ 

اس مختصرسی تمہید کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا نظام عفت انتہائی سادہ اصولوں پر استوار ہے اور اسے انسانی سعادت اور زمینی عمرانیات کی اساس کہا جاسکتا ہے۔ اسی میں خاندانی نظام کی بقاء راز پنہاں ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی کے لئے جو شیطانی منصوبہ بندی کی گئی اس میں سب سے پہلے جنسی بے راہ کو ہی استعمال کیا گیا۔ اس وقت مغرب کی صورتحال یہ ہے کہ مانع حمل کی ترویج سے شروع ہونے والے عمل کو تباہی کے آخری سرے تک پہنچا دیا گیا ہے۔ مغربی سکولوں کے بچوں میں منع حمل ادویات تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس سے کیا ہوگا؟ یعنی طرفین باہمی رضا مندی سے زنا کریں گے۔ میڈیا، ادب،سینما اور سیکورٹی کے درمیان میں رہتے ہوئے گناہ اور اباحیت کا دور دورا ہے جبکہ اس شیطنت کو تحفظ دینے کے لئے عدم مداخلت کے قوانین وضع کردیئے گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صرف امریکہ میں بیس سال سے کم عمر کی 80فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جو کنواری نہیں رہیں جبکہ ایک ملین بالغ امریکی لڑکیاں ہر سال ناجائز طور پر حاملہ ہوجاتی ہیں، سالانہ 44فیصد لڑکیاں مانع حمل ادویات استعمال کرتی ہیں۔ 60ہزار برطانوی لڑکیاں ہرسال ناجائز طور حاملہ ہوتی ہیں ان میں سے 45 فیصد لڑکیاں دوائوں کے ذریعے اس ناجائز حمل سے چھٹکارا حاصل کرتی ہیںیہی تباہ کن صورتحال کو امریکہ اور برطانیہ مسلم دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ میں15 سالہ لڑکیوں کی 75فیصد کنواری ہوتی ہے، جبکہ 17سالہ لڑکیوں کا تناسب 50فیصد اور 20 سالہ لڑکیوں کا تناسب 20ہے۔ 
References:
Health Development Agency. Teehage Pregnancy and Parenthood: 2003 www.hda-onlineorg.uk مغربی تحقیقی اداروں کے مطابق یہ تناسب ابھی اس صورت میں ہے جبکہ یہاں بڑی تعداد میں مانع حمل ادویات استعمال کی جاتی ہیں امریکہ میں سالانہ دس لاکھ بالغ لڑکیاں حاملہ ہوکر ادویات کا استعمال کرتی ہیں یہ تعداد کل کے مقابلے میں چالیس فیصد ہے ان میں سے 56فیصد لڑکیاں بچوں کو پیدا کرتی ہیں جبکہ 30فیصد لڑکیاں اس صورت میں اسقاط کرواتی ہیں جب بچہ نا مکمل ہوتا ہے جبکہ 14 فیصد لڑکیاں حمل کے ابتدائی دور میں ہی اسقاط کروالیتی ہیں۔ اس سارے عمل میں سالانہ 7 بلین ڈالر صرف کئے جاتے ہیںحرامی بچے پیدا کرنے والی 56فیصد لڑکیاں زیادہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی لاغر ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے جو پہلے ہی نامعلوم باپ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوتے ہیںماں کی طرف سے بھی توجہ نہ حاصل کرنے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے میں مزید بگاڑ کا سبب بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیمی طور پر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پرتا ہے جبکہ ذہنی اور غیر ہموار اقتصادی صورتحال انہیں مزید مریض بنادیتی ہے

References:
www.womenshealthchannal.com/teenpregnancy

ایک اور مغربی سروے کے مطابق برطانیہ میں ناجائز طور پر حاملہ ہونے والی بالغ لڑکیوں کی تعداد39 ہزار ہے، 45فیصد ابتدائی ایام میں ہی اسقاط کروالیتی ہیں جب میں سے 8ہزار ایسی لڑکیاں ہیں جن کی عمریں 16سال سے بھی کم ہیں اگر برطانیہ کے ساتھ اسکاٹ لینڈ اور ویلز کے علاقے کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد بڑھ کر سالانہ 60ہزار سے بھی تجاوز کرجائے گی۔ جبکہ برطانیہ کے ڈاکٹروں کی تنظیم یہ تعدار94 ہزار سالانہ بتاتی ہے۔ حکومت برطانیہ اس قوم کے علاج معالجے کے لئے 173ملین پونڈ صرف کرتی ہے۔ صرف شمالی آئرلینڈ میں سالانہ  96 فیصد لڑکیاں بن بیاہی ماں بن جاتی ہیں جو اپنے ان غیر قانونی بچوں کو پالنے لئے وسائل نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے یہ خود متعدد قسم کے نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ کھلے عام ناجائز جنسی میل ملاپ کے ان تباہ کن اثرات کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ کا معاشرہ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے اس لئے یہاں پر قائم مذہبی اور غیر مذہبی تنظیمیں لڑکیوں کو قوت کے ساتھ جنسی میل ملاپ سے روکنے اور شادیوں کی جانب راغب کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ اس سلسلے میں ایک سروے کے مطابق 5فیصد سے زائد لڑکیاں ذہنی دبائو کا شکار ہوکر خود کشی کی کوشش کرتی ہیں

References: 
Study Links Depression, Suicide rates to teen sex USA Today, June 3, 2003 

امریکہ میں سالانہ 3 لاکھ70ہزار عورتیں اسقاط حمل کرواتی ہیں جن میں 67فیصد عورتیں غیر شادی شدہ ہوتی ہیں۔ برطانیہ اور ویلز میں 1لاکھ 91ہزار جبکہ اسقاط حمل کرواتی ہیں جن میں 75فیصد عورتیں ہیں۔ غیر شادی شدہ ہوتی ہیں۔ قاہرہ، بیجنگ اور نیویارک کی خواتین سے متعلق عالمی کانفرنسوں میں خواتین کو کل 54ملکوں کی آبادی کا 61فیصد قرار دیا گیا تھا۔ ان 54ملکوں میں اسقاط حمل پر کوئی پابندی نہیں جبکہ اسلامی ممالک میں انسانیت کے قتل کے تصور سے اسقاط حمل کو ممنوع قرار دیا جاتاہے۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہویے کیتھولک عیسائیت میں بھی اسقاط حمل کو جرم قرار دیا گیا۔ امریکہ میں اسقاط حمل 13لاکھ70ہزار عورتیں کرواتی ہیں جن میں سے 67فیصد عورتیں غیر شادی شدہ ہوتی ہیں ان میں سے پروٹسٹنٹ عقیدے سے تعلق رکھنے والی عورتوں کا تناسب 43فیصد ہے جبکہ کیتھولک دیسائیت سے تعلق رکھنے والی 27فیصد عورتیں شامل ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ امریکہ میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے جرائم بھی ہیں ایک اندازے کے مطابق ہر دومنٹ بعد امریکہ میں ایک زیادتی کا کیس ہوتا ہے جو سالانہ سات لاکھ75ہزار کے قریب ہوتا ہے، جبکہ برطانیہ میں سالانہ طور پر ایک لاکھ نوے ہزار زیادتی کے کیس ہوتے ہیں۔ 2001ء میں امریکہ میں زیادتی کے کیسوں کی تعداد 2 لاکھ تھی جن میں سے دس فیصد جرائم مردوں کے خلاف ہوئے۔ امریکہ کی ہر ساتویں عورت زیادتی کا شکار ہوتی ہے 44 فیصد زیادتی کے جرائم میں عورتوں کی عمر 18 سال جبکہ 15فیصد کیسوں میں لڑکیوں کی عمر 12 سال سے بھی کم ہوتی ہے یہ ان مہذب معاشروں کا حال جو اس وقت دنیا کے معلم بنے ہوئے ہیں۔
References:
www.care.org.uk ABORTION STATISTICS FACTSHEET 2005
Abortion Statistice, England & Wales
Department of Health, Publication & Statistics 2003
www.agi-usa.org Alan Gutmacher Institute.

اس تمام مخدوش صورتحال کے بعد ایسے بچوں کا نمبر آتا ہے جن کا کوئی خاندان نہیں مندرجہ بالا حقائق کے بعد تصور کا یہ رخ سامنے آتا ہے جو انتہائی دردناک ہے۔ یہ بچے طلاق، نامعلوم باپ اور خاندانوں کے ٹوٹ جانے کے باعث بے آسراء رہ جاتے ہیں برطانیہ میں ایسے بچوں کی تعداد 20فیصد یعنی 29 لاکھ ہے جبکہ امریکہ میں 28 فیصد یعنی 20لاکھ تعداد ہے۔ برطانیہ میں غیر شادی شدہ جوڑوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی تعدار 41فیصد اور امریکہ میں 33فیصد ہے۔ برطانیہ میں طلاق کا تناسب 51فیصد اور امریکہ میں 50فیصد ہے۔ طلاق کی وجہ سے لاوارث ہوجانے والے بچوں کی تعداد برطانیہ میں 1لاکھ 47ہزار ہے جبکہ امریکہ میں دس لاکھ ہے۔ برطانیہ میں ایک لاکھ 75 ہزار خاندانوں میں نوے فیصد مائیں ہیں جبکہ باپوں کا تناسب صرف دس فیصد ہے۔ ان مین سے نصف خاندان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ امریکہ میں ایک کروڑ دس لاکھ افراد لڑکیوں کے ساتھ بغیر شادی کے رہتے ہیں، ان میں سے 12لاکھ ایسے افراد ہیں جو ہم جنس پرست ہیں۔ 
References:
National Family and Parenting Institute
www.nfpi.org
United States Census Bureau. Census 2000
www.statistics.gov.uk
 بشکریہ Tahaffuz, April 2009

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;