Monday, June 1, 2015

اسلامی نظام ، زکوۃ اور ٹیکس

اسلامی نظام کے زکوات کو جدید دور کے ٹیکس کا نعم البدل تصور کیا جاتا ھے ، مگر دونوں میں واضع انداز سے کئی بنیادی فرق ھیں۔ جن میں کچھ اس طرح ہیں کہ:
۱۔ زکوات صرف وہی ادا کرتا ہے  جو اس کے ادا کرنے کے قابل ہوتا ھے، جبکہ جدید طرز کے معاشروں میں امیر و غریب ھر طبقے کے لوگوں سے ٹیکس وصولی کی جاتی ھے۔ 
۲۔ زکوات میں بنیادی استعمال میں آنی والی اشیاء مثلاْ ذاتی استعمال میں آنے والے گھر اور گاڑی پر  استسنٰی حاصل ہے۔ جبکہ جدید معاشرے اس فکر سے عاری ہیں۔
۳- زکوات سال میں صرف سال میں ایک بار ادا کرنا ہوتا ھے ، جبکہ جدید معاشروں میں ھر ممکن طریق سے عوام کے جیبوں کو جھاڑآ جاتا ہے، معمولی چیزوں کی خرید فروخت پر روزانہ سیلز ٹیکس ، آمدنی پر ماھانہ انکم ٹیکس اور جائداد، گاڑی وغیرہ پہ سالانہ پراپرٹی ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔
۴۔ زکوات امراء سے لیکر غرباء کو دی جاتی ہے اور جبکہ جدید معاشروں میں غریب عوام کے ٹیکس پرسیاستدان، افسر شاھی اور حکمران عیاشاں کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسلام میں خلیفہ کی بھی تنخواہ عام مزدور کی دہاڑی کے حساب سے دی جاتی ھے، اس سے زیادہ اس کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے سرکاری خزانے پر۔
۵ - جدید معاشروں میں سخت قسم کے کارپوریٹ ٹیکس لگائے جاتے ہیں جن کا مقصد بڑے اور سرمائیدار طبقے کو تحفظ دینا اور متوسط طبقے کو اوپر آنے سے روکنا ہوتا ہے،  اس قسم کے ٹیکس نافذ کرنے میں خود کارپوریٹ سیکٹر حکومتوں کا بھرپور ساتھ دیتی ہے تاکہ ان کی اجارہ داری قائم رہے، جبکہ اسلام نظام زکوات میں اس طرح کی کوئی تفریق نہیں بلکہ غریبوں کو زکوات سے چھوٹ دی جاتی ہے اور بنیادی سہولتیں رکھنے والے متوسط طبقے کو رعایت دی جاتی ہے اور مال ملکیت کے حجم کے معیار بغیر ان سے ایک مقرر کردہ معمولی ٹیکس یعنی زکوات وصول کرکے ، ان طبقات کو بھی اگے بھڑنے کا پورا موقع دیتی ہے۔ 
،،،
اب جو کہتے ہیں کہ اسلام دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ، یا یہ صرف کسی مخصوص طبقے کا تحفظ کرتی ہے ،،، تو انہیں آپ عقل سے پیدل نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ۔۔۔!
بھلا انسان کو خالق سے زیادہ جاننے والا اور کوئی اور ہوسکتا ہے کیا؟۔
ذرا سوچو ،،،

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;