Saturday, January 10, 2015

اسلامی معاشرے میں مذاہب غیر کے پرچار کی ممانعت کی منطق

ہر معاشرے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں،  کسی کا ہاں مذہب ایک اہم پہلو ہے تو کسی کے ہاں سیاست تو کسی کے ہاں معشیت تو کہیں نظریات۔ اور ہر ایک معاشرہ اپنی اپنی ترجیحات مقرر کرنے میں آزاد ہے۔ 

یورپ اور امریکا میں آپ ہٹلرکے ہاتھوں یہودیوں کی مبینہ نسل کشی سے انکار نہیں کرستے۔ آپ کو کوئی حق نہیں ھولوکاسٹ کے کومسترد کریں۔ آپ اسپیکر پر اذان نہیں دے سکتے ، آپ کی عورتیں نقاب نہیں کرسکتی ہیں۔ آپ وہاں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کا پرچار نہیں کرستے اور عراق ، افغانستان میں قتل کیئے گئے لاکھوں بچوں اور مد اور عورتوں کا وکیل نہیں بن سکتے کیونکہ وہ پوری طرح سے یہود کی مفادات کا نگہبان ہے۔ یہ ان کی ترجیحات ہیں۔

اسی طرح چین ، کوریا  شمالی سمیت کسی کمیونسٹ ملک میں اشتراکی نظام کے خلاف بات نہیں کرسکتے، آپ دین اسلام  یا کسی مذہب کا پرچار بھی نہیں کرستے حتی کہ کئی جگہ پر آپ عبادت گاہ بھی نہیں جاتا۔  اسی طرح کئی افریکی ممالک میں کسی غیر مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں دیتی ہیں بلاشبہ یہ ان کی ترجیحات ہیں۔ 
اب ان بتی بند روشن خیال اندہوں کو کون سمجھائے کہ مسلمان ایک قوم ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کے دیار میں آکے کوئی انتشار پھیلانے کی کوشش کرے ، یہ ہمارے معاشرے کی ترجیحات ہیں اور مسلمان معاشرے باقی اقوام کی طرح اپنی ترجیحات میں آزاد ہیں۔

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;