Friday, September 26, 2014

بیٹی حالات کی سولی پر

بیٹی حالات کی سولی پر
جنم بناہے قتل کاپرچم

اظہار کر رہے ہیں ، اخلاقی اصلاحات اور معاشرے کو درست کر نے کے بارے میں اخباروں میں اعلانات کئے جاتے ہیں مگر معاشرہ نہ تو اخباری بیانات سے اور نہ ہی اخلاقیات پر تقریریں جھاڑنے سے دُرست ہوتا ہے۔
تاریخ کے ابتدائی ادوارکے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ کی سر براہی کبھی عورت کے ہاتھ میں تھی لیکن زمانے کے اُتار چڑھائو اور معاشرے میں زور زبردستی اور طاقت کے رواج نے آہستہ آہستہ پورا سماج مرد کے ماتحت کر دیا۔ عورت کو مردوں نے گھر کے سوا تمام معاملات سے بے دخل کر دیا۔ بچے پیدا کرنا اور گھر کی دیکھ بھال ،کھانا پکانا ہی عورت کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی،یہاں تک کہ ماڈرن زمانے میں عورت کے حقوق کی مختلف ملکوں میں تحریکیں چلیں اور اس طرح عورتوں کو گھر سے باہر بھی کام کرنے کی راہ مل گئی۔
دختر کشی کی لعنت کیوں اور کہاں سے پیدا ہوئی ہے؟ جب ہم ماضی کے بارے میں تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے یو نان میں دختر کشی کارواج تھا ۔یونان میں 200 قبل مسیح میں لڑکیوں کو مارنے کا اِس قدر رواج تھا کہ 6 ہزار خاندانوں میں صرف ایک فیصد خاندان میں دو لڑکیاں تھیں۔ یونانی فلا سفر جیسے اِرسطو اورافلاطون کے خیالات عورتوں کے بارے میں جس قسم کے تھے، اس سے یونان کے سماج میں عورتوں کے رتبے کا پتہ چل جاتا مثلاً  ارسطو عورت کے بارے میں کہتا ہے ’’ عورت مکمل Human being نہیں ہے اور عورت کی فطرتFull Human Person نہیں ہے‘‘۔ ان حالات میں عورت پر اعتبار تو دُور اسے نیچی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ چند اونچے خاندانوں کے بغیر یونان کے سماج میں عورتوں کے ساتھ جانوروں اور غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ارسطو کے اسی نقطہ نظر کو بعد میں ابتدائی کیتھو لک چرچ نے اپنا یا۔ Saint-Thomas of Aquinis  نے اپنی ابتدائی تحریروں میں عورت کو شیطان کا جال قرار دیا تھا اور یونانی فلسفہ نے عورت کو آدمی کے لئے تباہی کی علامت قرار دیا تھا۔ وہ تمام شیطانی کام عورت کے سر منڈ دیتے تھے اور یہی تحریریں اور خیالات عورت کے بارے میں چرچ کے پادری قرونِ وسطیٰمیں رکھتے تھے لیکن یورپ میں پروٹسٹنٹ مصلحین نے اپنے آپ کو کیتھو لک چرچ کے ا ن خیالات سے آزاد ہونے کی تحریک چلائی لیکن فرانس میں بھی انقلاب کے دوران کچھ فلا سفروں اور دانشوروں نے عورت کو مکمل انسان کی تخلیل نہیں مانا جیسے کہ روسواور ولٹائل اور دوسروں نے کہا کہ ’’عورت ایک بوجھ ہے جس کی دیکھ بھال کرنا مرد کے ذمہ ہے۔روسونے اپنی کتاب "EMILE" میں عورت کی تعلیم پر زور دیا اور اس نے مختلف طریقے عورت کی تعلیم کے بارے میں پیش کئے کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ’’عورت مرد کے مقابلے میں کم عقل رکھتی ہیں‘‘۔ اُس کے بعد یورپ میں 18 ویں صدی میں عورتوں اور کچھ مردوں نے ان خیالات کے خلاف تحریک چلائی جس کو Feminine Movement  کے نام سے جانا جاتا ہے ا ور اس پر پہلی کتاب Mary Walsen Craft نے Vindication for the rights of Women لکھی ہے۔ سب سے پہلے 8 اویں صدی میں ہی یورپ اور امریکہ میں عورت کو کچھ حقوق مل گئے جیسے کہ عورت کو اپنی پراپرٹی رکھنے کا حق نہیں تھا اور 8 اویں صدی میں ہی عورت کو یورپ اور امریکہ میںیہ حق مل گیا۔
صنعتی انقلاب جب یورپ میں آیا اور خاص طور پر انگلینڈ میں اور عورت کو زبردستیCoal, mines میں کام کرایا جاتا تھا اور مرد کے برابر ان کو تنخواہ نہیں ملتی تھی، جس پر یورپ اور انگلینڈ میںحقوقِ نسواں تحریک شروع ہوگئی اور عورت کو قانونی حقوق مردوں کے برابر یورپ میں ملنے لگے۔
پچھلی اور رواں صدی میں جب عورت کو مرد کے برابر درجہ ملنے لگا اور عورت مرد کے شانہ بشانہ مختلف ملکوں میںا پنی صلا حیتوں کو مردوں سے بڑھ کر بھی ظاہر کرنے لگی، عورت نے پائلٹ بن کر جہاز چلا نا شروع کیا اور چاند پر پہنچنے لگی۔ سیاست ، میڈیکل ، سو شالوجی ، سائنس میں اور دوسرے شعبوں میں جب عورت مرد سے آگے جانے لگی تو عورت کے خلاف دختر کشی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ یہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ چین میں بھی لڑکی کو ماں کی پیٹ میں ہی مارا جاتا ہے ۔
عالمی ادارۂـ صحت نے 1997ء میں رپورٹ دی کہ ’’ چین میں 50 ملین لڑکیاںغائب ہوئی ہیں کیونکہ چین میں دوسرے بچے کی پیدائش پر چونکہ پا بندی ہے اس لئے جن ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں انہوں نے ان کو غائب کر دیا۔ Brain Wood کے مطابق چین میں سالانہ ایک ملین لڑکیاں ماری جاتی ہیں کیونکہ چین میں لڑکے کو بڑھا پے کے لئے انشورنس سمجھا جاتا ہے اور لڑکا ماں باپ کی خدمت کرتا ہے ۔ چینی کسان ’’لڑکیوں کو چاول میں کیڑ ے سمجھتے تھے۔چین نے سختی سے الٹراسائونڈپر پا بندی لگائی لیکن دیہاتوں میں چوری چھپی بھاری رقومات دے کے اس ٹیسٹ کے ذریعے بچے کی جنس کا پتہ کیا جاتا ہے ،جب کہ چین کے بانی ماوزے تنگ نے بچوں کو قتل کرنے سے روکنے کے لئے کہا تھا کہ ’’ ایک شخص اگر ایک منہ لے کے پیدا ہوتا ہے تو اس کے دو ہاتھ بھی ہیں‘‘ چین میں  111 ملین مردوں کے لئے اب بیویاں میسر نہیں ہیں۔
ہندوستان میں لڑکی کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کے ذہن میں اس کی دو وجوہات ہیں: (ا)- لڑکی دوسرے گھر میں جاتی ہے وہ ماں باپ کی خدمت بڑھا پے میں نہیں کرتی ہے ا ور دوسری بڑی وجہ جہیز ہے جس کی وجہ سے لڑکی کو مارا جاتا ہے۔رتلام مدھیہ پردیش میں کر سچن مشنری ہسپتال کے بیک یارڑ میں 390 لڑکیوں کی لاشیں پائی گئیں جو کہبچیاں تھیں۔ہندوستان کے بہت سے دیہاتوں میں 2000 لڑکوں کے مقابلے میں 59 لڑکیاں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف راجستھان کے جے پور شہر میں سالانہ  3500 لڑکیاں مادر شکم میں ماری جاتی ہیں۔ تامل ناڈو میں1993ء میں صرف ایک دیہات میں196 لڑکیاں ماری گئیں۔ Unicef کے مطابق 1984ء میں ممبئی میں جواستقاطِ حمل ہوئے ان کی تعداد 8000 تھی جن میں 7999 لڑکیاں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنس کی جانچ پڑتال منافع بخش کاروبار بن گیا۔
یہی نہیں بلکہ پنجاب اور ہریانہ میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد 15% فی صد کم ہے۔ جموں خطے میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہیں ۔جموں اور سرینگر میں حال ہی میں الٹراسائونڈکے کلینک بند کر دیئے گئے ۔ یورپ میں ڈاکٹر معائینے کے دوران بچے کے جنس کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے یہاں بعض کلینک والے اور چند ایک فرض ناشناس ڈاکٹر اِس گھناونے دھندے میں شریک رہ کر صرف پیسے کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور اِن کی وجہ سے تمام ڈاکٹروں اور کلینکوں کو بھی سزا بھگتنی پڑھتی ہیں۔
جوہن تھر لکھتے ہیں کہ ’’ ہندوستان کے دیہاتی علاقوں میں لڑکی کو قتل کرنا صدیوں پرانی روایت ہے اور لڑکی کو قتل کرنا کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ فلسطین میں مئی 2010ء میںا یک آدمی نے اپنی بیوی کو اس لئے قتل کیا کیونکہ اُس کی پیٹ میں دوسری لڑکی پل رہی تھی جبکہ اُس سے پہلے اُس کے تین لڑکے اور ایک لڑکی تھی مگر اُس کے بھائی کے 9 لڑکے تھے اِس لئے حسد کی وجہ سے سے ہی اپنی بیوی اور شکم میں پل رہی بچی کو قتل کر دیا۔ Marina Porras اپنی کتاب Female infantcides and foeticide   لڑکیوں کو مارنے کی وجہ کے بارے میں لکھتی ہے۔ ’’ لڑکیوں کو قتل کرنے کی شعوری وجہ لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کو فوقیت دینا اور معاشرے میں لڑکی کی حیثیت لڑکوں سے کم درجہ قرار دی ہے۔
 "Female infanticide is the intentional killing of baby girl due to the prefrence for male babies and from the low value associated with the birth of females".
صرف چین اور ہندوستان کے سماج کی بات نہیں جو ترقی یا فتہ نہیں ہے بلکہ 300 ایسے کیس امریکہ اور برطانیہ میں ’’پیدا ہو نے والے بچے کو قتل کرنا‘‘ کے تحت رجسٹر کئے گئے لیکن المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی عورت ایک رات سے زیادہ اس جرم میں جیل میں نہیں رہی ۔یہاں پر بچوں کو قتل کرنے کی وجہ ان کی مائیں یہ بتاتی ہیں ’’کہ ایک تو ہم کم عمر ہیں ،غریب ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں ۔اس کے علاوہ ہم سماج میں Isolated ہیں یعنی یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونے والے بچے کو اس لئے قتل کیا جاتا ہے کیونکہ قتل کرنے والی مائیں شادی کے بغیر بچوںکو پیدا کرتی ہیں۔
ان حالات میں جب کہ صدیوں سے عورت کو مغرب میں شیطان کا جال اور آدھا انسان اور جانور اور غلام کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ ربِ قدوس نے قران کی تعلیمات کے مطابق عورت اور مرد کو انسانیت کا ایک پہلو کے طور پر یعنی مرد اور عورت انسانی فطرت کے مطابق برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ابتدائی مغربی تہذیب میں عورت کو پورے طور پر انسان سمجھتے ہی نہیں تھے ۔ہمارے آقا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400سال پہلے جو صالح انقلاب لایا اُس میں عورت کو نہ صرف مکمل انسان کا درجہ دیا گیا اور عورت کو ماں بہن بیٹی بیوی اور دوسرے رشتوں کے تقدس کی پہچان کرائی۔ رب کریم نے فرمایا: اے انسان ہم نے تجھے ایک جوڑے سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا اور تمہاری پہچان کرائی اور تم میں سے باعزت وہ ہے جو پرہیز گار ہو۔ (القرآن) ۔قرآن مجید کی اِس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے حقوق قدرتی طور برابر ہیں۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے تمہیں ایک روح سے پیدا کیا اور پھر تم ہی میں سے جوڑے جوڑے بنائے اور پھر ان ہی میں بہت سارے لوگوں کو پیدا کیا مرد اور عورت کی صورت میں اور پھر پوری دنیا میں پھیلائے ‘‘۔اس آیت سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ رب کریم نے مرد اور عورت کے بارے میں صاف فرمایاہے کہ انسانیت کے حوالے سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے اور عورت مرد کے برابر انسانیت کا درجہ رکھتی ہے۔ عرب چونکہ ریگستان تھا ،پانی کی شدید کمی تھی ،زندگی بہت سخت تھی ،خود کو پالنا بہت بڑا مشکل تھا ۔اس لئے غربت کے ہاتھوں وہ لڑکیوں کو زندہ زمین میں دفن کرتے تھے۔ خدا وند کریم نے لڑکی کی پیدائش کو ایک خوشی کی خبر سے تعبیر کیا کیونکہ خدا فرماتا ہے: ’’جب اُ سے اچھی خبر بیوی کے ہاں لڑکی کی پیدائش کی دی جاتی ہے یعنی اچھی خبر کا مطلب ’’لڑکی کی پیدائش کی ‘‘  تو اس کا چہرہ کالا ہو جاتا اور وہ شرمسار ہو جاتا تھا اور وہ اس خبر کو چھپاتا تھا ،لوگوں کو نہیں بتا تا تھا کہ میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے کیونکہ وہ شرم محسوس کرتا تھا کیا وہ اس لڑکی کو زندہ زمین میں دفن کر ے گا۔
مغرب ،جہاں کی عورت کو آزاد عورت سے ہم تعبیر کرتے ہیں ،آج بھی اگر وہاںکے معاشرے کاگہری نظروں سے مطالعہ کریں تو دیکھیں بہت سارے ملکوں میں عورت کو کوٹھے پر بٹھا کر اُ سے جسم فروشی کی اجازت دے کر حکومت اُن سے ٹیکس بھی وصول کرتی ہے۔ شادی کا بندھن مغرب میں کھیل تماشہ بن چکا ہے ۔مغرب میںعورت کو انسان کا درجہ 18 ویں صدی میں ملا جبکہ اسلام میں عورت کو 1400 سو سال پہلے مرد کے برابر رب قدوس کی تخلیق بتا یا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار لڑکیوں کی اچھی پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت دی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم صلعم کے پیرو کاروں کے گھروں میں لڑکیوں کو پیدائش سے پہلے لوگ قتل کیوں کرنے لگے؟ اس کی وجوہات ہمیں تلاش کرنی چاہئے۔
کشمیر میں بہت سارے گھرانوں میں لڑکیوں کے ساتھ لڑکوں کے بجائے پالنے پوسنے میں تفریق کی جاتی ہے۔لڑکوں کو تعلیم ،کھانے پینے ،پہنائوے اور آزادی کے حوالے سے لڑکی کے مقابلے میں ترجیح دی جاتی ہے جبکہ عام طور پر لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں نہ صرف گھر کا زیادہ کام کاج کرتی ہیں بلکہ اگر چھوٹے بہن بھائی ہوں ،ان کو پالنے کا زیادہ تر بوجھ بڑی بہن پر ہی ہوتا ہے ۔آج بھی شہر سے باہر اکثر کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا جاتاہے ۔آپ میوہ باغات میں چلیں ،کھیتوں میں جائیں ،سبزی پھلواڑیوں میں جائیں تو آپ کی مردوں کے شانہ بشانہ چھوٹی لڑکی سے بوڑھی عورت تک کام کرتے ہوئے دکھائی دے گی ۔ اس سب کے باوجود دختر کشی کا معاملہ بہت ہی زیادہ بھیا نک اور اس معاشرے کے لئے تباہی کا باعث ہے ۔ ہمیں اس کی وجوہات تلاش کرنی ہوگی۔ معاشرے کے نام نہاد کرتا دھرتا ئوں کی نصیحتوں یا واعظ خوانی سے اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ نصیحتوں اور وعظ سے کوئی مسئلہ حل ہو جاتا تو مسئلہ ہی کیوں پیدا ہو جاتا؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑکی کی پیدائش ایک اچھی خبر ہے ۔میرے نزدیک اس کی وجہ نسلِ آدم کو آگے بڑھا نا ہے۔ اگر لڑکی نہ ہو تو ماں بہن بیٹی بیوی کون بنے گی؟ لڑکی کی ہی وجہ سے حضرت آدم کی نسل آگے بڑھ جاتی ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ چونکہ پیدا ہونے والی لڑکی کل کسی کی ماں کسی کی بہن کسی کی بیٹی بن جاتی ہے اور یہی عورت ماں بن کر بڑے بڑے ولیوں ، اولیاء ، دانشوروں محد ثیں، سکالروں کو جنم دے کر کائنات کی بہتری کا ذریعہ بنتی ہے۔ کتنے ظالم اور خبیث ہیں وہ لوگ جو لڑکی کو پیدائش سے پہلے ہی شکمِ مادر میں قتل کر دیتے ہیں ۔یہ لوگ صرف ایک لڑکی کو قتل نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ انسانی ارتقاء کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ،کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کل اسی قتل کی گئی لڑکی کے بطن سے کوئی بہت بڑا ڈاکٹر، فلا سفر، سائنسداں، انجینئر، عالم یا ایک اچھا انسان پیدا ہوتا۔
ہمیں دختر کشی کی وجوہات کو تلاش کرنا چاہئے ،مثلاًہمارے معاشرے میں :
(۱)-تعلیم روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہے، سرکاری سکولوں کا معیار بہت گرچکا ہے ۔جس کی وجہ سے لوگ پرائیوٹ سکولوں میں بچوں اور بچیوں کو تعلیم پڑھا نے پر فوقیت دیتے ہیں۔
(۲)- لڑکی پراکثر گھرانوں میں چونکہ لڑکے کو فوقیت دی جاتی ہے اور اُ سے بڑھاپے کا سہارا سمجھا جاتا ہے اور اس لئے لڑکی کے بجائے لڑکے کو تعلیم دینے پر ترجیح دی جاتی ہے۔
 (۳)- معا شرے میں سب سے بڑی لعنت لڑکی کی شادی ہے کہ جو اس کے ماں باپ کے لئے بھاری بھرکم بوجھ ہے۔واز وان اور دوسری بدعات و رسومات پر لاکھوں روپیہ لڑکی کی شادی پر خرچ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب لوگوں کے لئے لڑکی کو بیانا بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیاں M.A. کر کے بھی گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں کیونکہ أن کے ماں باپ کے پاس لڑکیوںکے شادی کے اخراجات نہیں ہے ، بہت سارے لوگ ملازمت کرنے والی بیوی اور بہو ڈھونڈتے ہیں۔ لوگ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی جہیز اور لڑکی کے اخراجات کے بارے میں سوچ کر کا پنے لگتے ہیں کہ پتہ نہیں شادی کے بعد بھی ہماری لڑکی آباد ہوگی کہ نہیں۔ اس وجہ سے بھی بہت سارے بد بخت لڑکی کو مادرِ شکم میں ہی ہلاک کر دیتے ہیں۔
(۴) - لڑکی کو معاشرے میں لڑکوں جیسا مقام دینے کے لئے بہت ضروری ہے کہ سماج میں لڑکی کو لڑکے سے کم ترنہ سمجھا جائے اور لڑکی کے لئے معاشرے میں تحفظ کا احساس پیدا کیا جائے۔
(۵) - عورت کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مختلف فیلڈ میں مثلاََ سائنس ، میڈیکل اور تعلیم میں زیادہ سے زیادہ کا میابیاں حاصل کریں۔ اس حوالے سے لڑکیوں کیلئے میڈیکل تعلیم اور سائنس میں لڑکوں کے مقابل میں نمبروں میں رعایت دی جائے۔
(۶) - لوگوں کے ذہن بدلنے کے لئے عورت کی سماج میں عزت اُبھارنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کی جائے۔
(۷)- حکومتیں بنیادی طور پر سوشل اور اکانومی کے لحاظ سے عورت اور بچوں کو تحفظ دیں اور ان کی بہبودی کے لئے مختلف رعایتوں کا اعلان کریں۔
(۸) - جہیز پر سختی سے پانبدی لگائی جائے اور واز ہ وان کو محدود کیا جائے بلکہ اس بدعت پر پا بندی لگائی جائے ۔
(۹)- مذہبی سکالر اور علماء اسلام میں عورت کے اونچے درجے کے بارے میں زوردار اورمؤثر تبلیغ کریں۔
بنیادی طور پر معاشرے میں ہر آدمی اپنا یہ فرض بنالے کہ کسی بھی صورت میں ہم سب عورت کے خلاف کوئی بھی نسلی امتیاز نہ برتنے ددیںگے ۔
---------------------------------
(نوٹ:-مضمون نگار ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی کے چیئرمین ہے۔)

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;