Saturday, August 25, 2012

خودکشی: مغرب کی کھوکھلی اور بے چین تہذیب

کیا اس جدید تہذیب و تمدن اور طریقوں کو لفظ بہ لفظ 'ارتقاے زمانہ' کے نام پر اختیار کرلیا جائے جس کے نتیجے میں لوگوں کا زندگی بسر کرنا بلکہ مغرب میں لوگوں کا مرنا بھی ناممکن ہوگیا ہے؟ برطانیہ جیسے ملک میں تدفین کی رسومات پر چار پانچ ہزار پونڈ خرچ ہوتے ہیں لہٰذا اب تدفین کی رسم کے لیے بھی انشورنس متعارف کرایا گیاہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں کینسر جیسی کئی موذی اور مہلک بیماریوں کے جدید علاج نے موت کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے۔علاج سے مرنے کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے۔ سات ہزار سال کی تاریخ میں سترہ تہذیبوں میں جہاں کبھی خود کشی کی روایت نہیں رہی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ خود کشی جدید طرزِ زندگی کے طور پر عام ہورہی ہے۔ غربت، معیارِ زندگی کی آرزو ، خوابوں سے بھرپور اَلف لیلوی پرتعیش زندگی، چکا چوند سے معمور ، زرق برق خوابناک طرزِ حیات جو صرف میڈیا پر دکھائی دیتا ہے، جدید ایجادات اور اُن کی اشتہار بازی سے بے شمار مہلک دماغی، جسمانی اور روحانی امراض مسابقت کی دوڑ میں ناکامی کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ان مہلک امراض کے علاج اتنے مہنگے ہیں کہ زندگی بہ خوشی ہار دینا اور خود کشی کرلینا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ جو موت قسطوں میں لاکھوں روپے خرچ کرکے ملتی ہو، جس کے باعث خاندان، جائیداد، عزتیں اور عورتیں سب بک جاتی ہوں مگر مریض پھر بھی صحت مند نہ ہوتا ہو تو سب کے لیے خودکشی کے راستے کھل جاتے ہیں۔ اسی لئے خود کشی عام ہورہی ہے خواہ وہ دنیا کے غریب علاقے ہوں یا امیر خطے، اس کا سبب شاعر عارف شفیق نے صرف دومصرعوں میں بتا دیا ہے: ؏
غریب شہر تو فاقے سے مرگیا ،لیکن امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی
کسی کے پاس کھانے کو روٹی نہیں اور کسی کے پاس کھاکےمرنے کے لیے ہیرا ہے، یہ خدا بے زار معاشروں کا انجام ہے!!
خودکشی صرف غریب آدمی نہیں کررہا، بڑے بڑے اُمرا کررہے ہیں؛ ان یورپی ممالک میں ہورہی ہے جہاں آمدنی اور عیاشی سب سے زیادہ ہے۔ جن کو ہمارے جدیدیت پسند مسلم مفکرین بڑی حسرتوں سے دیکھتے ہیں او رجیسے ہی کسی یورپی ملک سے سفر کرکے آتے ہیں ،فوراً مدح و ثنا کے لیے سفر نامے لکھتے او راسلام سے ٹریفک کا نظام ثابت کرنےلگتے ہیں۔مغرب میں محبت، خاندان،رشتوں، روابط، مذہب، اقدار اور اخلاقیات کی موت کے باعث لوگوں کی زندگی بے معنی[meaningless]ہوچکی ہے۔ اس کو معنیٰ دینے کا طریقہ گینیزبک آف ورلڈ ریکارڈ ہے، مگر زندگی پھر بھی بے معنی ہی رہتی ہے۔ نہ خاندان ، نہ ماں، نہ بیوی نہ بچے، آدمی کس کے لیے جیئے؟ کس کے لیے مرے؟ کس کے لیے قربانی دے؟ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے ہی لیے مرجائے۔ ہائیڈیگر کے الفاظ میں یہ 'فاتحانہ موت' آج مغرب کی پسندیدہ تہذیب ہے جسے تیزی سے مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔
عہد ِحاضر کا سب سے بڑا فلسفی گلزڈلیوز[Gills Delluze]اس عہد کے مسائل پر سوچتے سوچتے پاگل ہوگیا اور وہ ان مسائل کا کوئی جواب نہ دے سکا تو اس نے ہسپتال کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ اسے صدمہ ہے کہ انسان ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ باپ بیٹی ،ماں اور بیٹے کے رشتوں میں مساوات کے فلسفے کے باوجود ابھی تک احترام قائم ہے۔ یہ تعلقات ابھی تک مکمل ناپاک نہیں ہوئے۔اسے شکایت یہ ہے کہ [Incestuous Relations]عام کیوں نہیں ہوگئے۔ حالانکہ مغرب میں مساوات کے فلسفے کے باعث حقیقی خونی رشتوں میں جنسی جبر کی شکایات عام ہیں۔تاریخ انسانی میں کبھی کسی فلسفی نے اس بےبسی کے ساتھ اپنی جان کانذرانہ پیش نہیں کیا۔ جدید مغربی تہذیب اس کی سائنس، ٹیکنالوجی او راس کے بطن سے پھوٹنے والے مسائل گلزڈلیوز کی خودکشی کا سبب ہیں۔
سوئٹزرلینڈ، ناروے، سویڈن، جرمنی اس وقت عصری تاریخ کے ترقی یافتہ، امیر، سہولتوں سے آراستہ اور جدید فتوحات سے مزین بہت محدود آبادی کے حامل معاشرے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ خودکشی کی شرح انہی خطوں میں ہے تو آخر کیوں؟ مادی ترقی کی معراج پر پہنچنے کے بعد بھی کیا کسی شے کی ضرورت باقی رہ گئی؟
انسان خود کشی کیوں کرتا ہے؟ کیااسے خود کشی کرنی چاہیے؟ خود کشی کیوں کی جاتی ہے؟ فلاسفہ کے یہاں اس پر دلچسپ بحث ملتی ہے۔ کانٹ کے خیال میں انسانی ذہن بارہ حصوں میں منقسم ہے۔ ہیگل کے خیال میں ان کی تعداد 105 ہے۔کانٹ کے خیال میں کوئی عقل مند خودکشی نہیں کرسکتا۔ ہیگل کے خیال میں خودکشی انسان ہی کرتے ہیں، جانور کبھی خود کشی نہیں کرتے۔کیا عہدِ حاضر کا انسان جانور سے بھی گیا گزرا ہے یا خودکشی کوئی قابل فخر کام ہے۔ عہد ِحاضر میں زندگی اتنی اذیت ناک کیوں ہوگئی ہے؟!
زندگی یقیناً اذیت ناک ہے، اس لیے کہ عہد حاضر کے انسان کی آرزوئیں اور تمنائیں میڈیا اور اشتہارات کی صنعت نے بہت بڑھا دی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان Scarcityکے جدید مادی و روحانی بحران کا شکار ہوگیاہے جس کا آخری حل خودکشی ہے۔ جزیرۃ العرب کی سخت ترین زندگی میں شب و روز بسر کرنے والے مشرکین نےکبھی خودکشی نہیں کی مگر عہد ِحاضر کے عیش و عشرت اور سہولتوں میں آنکھ کھولنے والے وحشی اپنی جان پرکیوں کھیل رہے ہیں؟ کیا بنیادی تغیر واقع ہوگیا ہے کہ اونٹ کی جلتی ہوئی پیٹھ پر بیٹھ کر تپتے ہوئے صحراؤں میں کوک پیپسی اورٹیٹرا پیک کے دودھ کے بغیر سفر کرنے والا فرد کبھی زندگی سے بیزار نہیں ہوتا تھا،جب کہ عہد ِحاضر کا عیاش فرد یہ تمام سہولتیں، مراعات، تعیشات، مل جانے کے باوجود مرجانا چاہتا ہے تو کیوں؟ اگر عہدِجدید کے مسلم مفکرین ان باریکیوں ، نزاکتوں سے واقف نہیں تو وہ خطبہ جمعہ سننا ترک کردیں اور اپنے لیے ہیگل کے جدلیاتی افکار پر مبنی دَجل سےنیا خطبہ جمعہ تیار کریں۔ [خود کشی کی تفصیلات کے لیے انٹرنیٹ پربے شمار معلومات میسر ہیں]
سائنس وٹیکنالوجی کے مدح خواں
حسین نصر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر تہذیب کو سائنسی ترقی اس قوم کے دورِ زوال میں ملی، لیکن اس تاریخی تجزیے کو تسلیم کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کی سائنسی ترقی کے دورِ عروج کو ہی اصلا ًدور ِعروج سمجھتے ہیں، اسے زوال کی علامت کے طور پر قبول نہیں کرتے او راس امر پر تعجب کرتے ہیں کہ اس عروج پر زوال کیوں آگیا؟ اور اس زوال سے عروج کے سفر کا راستہ کیسے نکالا جائے؟ یعنی دنیا کی تاریخ میں تمام تہذیبوں اور اقوام میں مسلمان وہ واحد تہذیب ، قوم یا اُمت ہےجس کو سائنسی ترقی دورِ زوال میں نہیں مسلمانوں کے دورِ عروج میں ملی۔ ایک جانب وہ عہدِ عباسی کو عہد ِملوکیت بھی قرار دیتے ہیں، ملوکیت کو تمام گناہوں کی جڑ کہتے ہیں تو دوسری جانب اس ملوکیت سےنکلنے والی سائنس کو عظیم اسلامی سرمایہ تسلیم کرتے ہیں اور اس سرمایے کے دوام کے لیےکوشاں رہنے کو مقصود ِقرآن اور مطلوب رسالت ِمحمدیﷺ قرار دیتے ہیں۔
ملوکیت کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دینا تاریخی طور پر خالص سیاسی مادی اور دور جدید میں خالص مغربی نقطہ نظر سے ہم آہنگ فکر ہے جو جمہوریت اور جدید مغربی تصورِ تاریخ سے برآمد ہوا ہے جس کی عمر تین سو سال سے زیادہ نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کو ملوکیت کی تاریخ سمجھنا ردّعمل کی نفسیات سے برآمد ہونے والا نتیجہ ہے جو جمہوریت کے کفر سے خاص تعلق رکھتا ہے اور حاکمیت ِجمہور کے ذریعے حاکمیتِ الٰہ کے تصور کو جڑ/ بنیاد سے ختم کردیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ نقطہ نظر اپنی تاریخ کا انکار ہے۔ جو ملت اپنی تاریخ کو بالکلیہ ردّ کردے، وہ صحرا میں تنہا کھڑی ہوگی اور سراب کی تلاش میں رہے گی۔
اُمت ِمحمدیہ نے سائنسی علوم کی ترویج کو اپنا مطمح نظر کیوں نہ بنایا!
حسین نصر کے ان تضادات کی تشریح و توجیہ کے لیے ہمیں کچھ او رلکھنے کی ضرورت نہیں، حسین نصر اور مکتبہ روایت سے وابستہ مفکرین اسلامی سائنس کی نہایت عالمانہ اور پرجوش وکالت کے باوجود یہ نہیں بتا سکے کہ مسلمان کا دور ِعروج تو عہد ِرسالت مآبﷺ اور عہدِ خلافتِ راشدہ ہے اور بلا شبہ خیرالقرون ہے،لیکن اس عظیم عہد اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زرّیں ادوار میں سائنس کی ترقی کے لیے کیا لائحۂ عمل مرتب کیا گیا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ خیرالقرون سائنس کی عظیم ترقی سے کیوں خالی رہا؟ کیا علومِ نقلیہ، روحانیت اور شعورِ ایمانی کے مقابلے میں علوم عقلیہ کی ذرہ برابر بھی وقعت نہیں تھی۔ کبار صحابہ کرامؓ میں کتنے سائنس داں تھے، سائنس کے بغیر ہی مسلمانوں نے تین برّاعظموں کو کیسے فتح کیا؟
اُمت ِمسلمہ کا اصل کردار وہ ہے جب وہ مادی طور پر نہایت ہلکی اور اخلاقی و روحانی طور سے سب پر فضیلت کی حامل تھی یا وہ دور جب اسے دنیا میں مادی طور پر برتری حاصل ہوگئی تھی۔ اگر مادی دور بہتر تھا تو اسی دور میں تاتاریوں جیسی کمزور قوم نے اُنہیں کیسے شکست دے دی؟ او راندلس عظیم سائنسی ایجادات کے باوجود اپنا تحفظ کیوں نہ کرسکا کہ وہاں کوئی مسلمان باقی نہ بچا؟
یہ سوال اہم ہے کہ ہمسایہ اقوام کی مادّی ترقی ،تہذیب، سائنس اورتعمیرات سے اُمّ القریٰ کے مسلمان کیوں مرعوب و متاثر نہ ہوئے؟ اور مدینۃ النبیؐ میں ان فنون اور علوم ِعقلیہ کی درآمد میں کیا امر مانع رہا؟ اس سوال پربھی غور کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہمسایہ اقوام کے علومِ عقلیہ اور محیر العقول فلسفہ و سائنس سے اگر مرعوب ہوجاتے تو کیاوہ روم و ایران کو فتح کرسکتے تھے؟ رومی اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ایران کو فتح نہ کرسکے، لیکن مسلمانوں نے نہ صرف سرزمین ایران کو فتح کرلیا بلکہ اس خطے کے لوگوں کے قلب بھی تسخیر کرلیے اورعظیم الشان رومی سلطنت کا بھی خاتمہ کردیا۔ مسلمانوں کے پاس روم و ایران کی سائنس و ٹیکنالوجی کے مقابلے میں صرف ایمان کی قوت تھی۔ ان قوتوں کا خاتمہ کرنے والے ان ختم ہونے والی سلطنتوں کی مادی ترقی ، علومِ عقلیہ کے مقابلے میں کس حیثیت او رکس مقام کے حامل تھے، اس کے لیے تمام مروّجہ تاریخوں کا مطالعہ کرلیا جائے۔

یہ تحریر ڈاکٹر نعمان ندوی کے مضمون سائنس و ٹیکنالوجی سے لی گئی ہے۔ 

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;