Wednesday, June 12, 2013

شاہ دولہ کے بھارتی چوہے اور ڈی این اے ٹیسٹ


قرآن و سنت اور اسلامی قانون سے ناواقف ہونا تو خیر اس "روشن خیال تعلیم یافتہ لبرل طبقہ" کے لیے شرمناک نہیں ہے مگر ان کی "سائنس دانی" پانچویں کلاس کی سائنس سے آگے نہ بڑھ سکی یہ ضرور ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے" . جب ان بچاروں کو پتا ہی نہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کس طرح کا عمل ہے اور اس کے کیا مراحل ہیں اور اس کی پیچیدگیاں کیا ہیں اور یہ بھی نہیں پتہ کہ ڈی این اے ٹیسٹ صد فیصد درست ہونے کی بھی کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ 

ان کو یہ بھی نہیں پتہ یہ فتویٰ کس اسلامی سزا کے مقابلے میں دیا گیا اور اسلامی سزائوں میں حدود کی کیا سزائیں ہیں اور تعزیرات کی سزائیں کیا ہیں۔ ، دوم یہ کہٹیسٹ اس بات کا بھی ثبوت نہیں کہ یہ فعل جبراً تھا کہ بالرضا تها, يا يه كه يه ايك عملاً ایک منصوبہ کے تحت تھا جس میں کسی بھی بازاری طریقے کو استعمال کیا گیا ۔ اس کے کئی اور بھی کئی پیچدگیاں ہیں, بالفرض اگر کوئی فعل کرکے جنسی جرثوموں کو جسم میں داخل ہونے سے روک لے ۔ یا کسی کے جرثومے حاصل کرکے استعمال کرلے۔ چناچہ، ڈے این ٹیسٹ کو حدود کی سخت سزا ﴿یعنی سنگسار﴾ میں حتمی ثبوت نہ ماننا ایک ٹھیک فیصلہ ہے۔


اگر چار گواہ نہ ہو تین یا اس سے کم گواہ ہوں یا شرعی شہادت نہ ہو ملزم پر تعزیر کی سزائیں لاگو ہوسكتی ہیں جو گواہوں اور ضمنی ثبوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 25 سال کی قید اور 30 کوڑوں تک جا سکتی ہے حتى كه کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت زنا بالجبر میں ہی عدالت ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ 

 ان روشن خیالوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ بالفرض "اگر حد کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو حتمى شہادت تسلیم کرلیا بهى گیا تو ہمارے روشن خیال طبقے کی آدھی عوام سنگسار ہوجائے گی اور باقی آدھی کوڑے کھا کر اسپتالوں اور جيلوں میں پڑی ہوگی"۔ تعجب ہے تمهارى عقلمندى په۔

-- مرکزی خیال: مصنف غلام اصغر ساجد

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;