Friday, January 4, 2013

دُعائیں اور عزم و ہمت ۔۔۔۔ از ابوالکلام آزاد


صلیبی جہاد نے ازمنہ وسطٰی کے یورپ کو مشرق وسطٰی کے دوش بدوش کھڑا کر دیا تھا۔ یورپ اُس عہد کے مسیحی دماغ کی نمائندگی کرتا تھا۔ مشرق وسطٰی مسلمانوں کے دماغ کی، اور دونوں کی متقابل حالت سے اِن کی متضاد نوعیتیں آشکارا ہو گئی تھیں۔ یورپ مذہب کے مجنونانہ جوش کا علم بردار تھا۔ مسلمان علم و دانش کے علمبردار تھے۔ یورپ دعاؤں کے ہتھیار سے لڑنا چاہتا تھا۔ مسلمان لوہے اور آگ کےہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ یورپ کا اعتماد صرف خدا کی مدد پر تھا۔ مسلمانوں کا خدا کی مدد پر بھی تھا۔ لیکن خدا کے پیدا کیے ہوئے سروسامان پر بھی تھا۔ ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا۔ دوسرے نے نتائجِ عمل کے ظہور کا۔ معجزے ظاہر نہیں ہوئے، لیکن نتائجِ عمل نے ظاہر ہو کر فتح و شکست کا فیصلہ کر دیا۔
ژو این ویل کی سرگزشت میں بھی یہ تضاد تقابل ہر جگہ نمایاں ہے۔ جب مصری فوج نے منجنیقوں (Petrays) کے ذریعہ آگ کے بان پھینکنے شروع کیے تو فرانسیسی جن کے پاس پرانے دستی ہتھیاروں کے سوا کچھ نہ تھا، بالکل بے بس ہو گئے۔ ژو این ویل اس سلسلے میں لکھتا ہے:
“ایک رات جب ہم ان برجیوں پر جو دریا کے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھیں، پہرہ دے رہے تھے، تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری (یعنی منجنیق) کہتے ہيں، لاکر نصب کر دیا اور اس سے ہم پر آگ پھینکنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر میرے لارڈ والر نے جو ایک اچھا نائٹ تھا، ہمیں یوں مخاطب کیا”اس وقت ہماری زندگی کا سب سے بڑا خطرہ پیش آ گیا ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے ان برجیوں کو نہ چھوڑا اور مسلمانوں نے اِن میں آگ لگا دی تو ہم بھی برجیوں کے ساتھ جل کر خاک ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہم برجیوں کو چھوڑ کر نکل جاتے ہيں تو پھر ہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں۔ کیونکہ ہم ان کی حفاظت پر مامور کیے گئے تھے۔ ایسی حالت میں خدا کے سوا کوئی نہیں جو ہمارا بچاؤ کر سکے۔ میرا مشورہ آپ سب لوگوں کو یہ ہے کہ جونہی مسلمان آگ کے بان چلائیں، ہمیں چاہیے کہ گھٹنے کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے۔ چنانچہ سب سے ایسا ہی کیا۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلا بان چلا۔ ہم گھٹنوں کے بل جھک گئے اور دعا میں مشغول ہو گئے۔ یہ بات اتنے بڑے ہوتے تھے، جیسے شراب کے پیپے، اور آگ کا شعلہ جو اِن سے نکلتا تھا، اُس کی دُم اتنی لمبی ہوتی تھی جیسے ایک بہت بڑا نیزہ۔ جب یہ آتا تو ایسی آواز نکلتی جیسے بادل گرج رہے ہوں، اس کی شکل ایسی دکھائی دیتی جیسے ایک آتشیں اَژدہا ہوا میں اُڑ رہا ہو۔ اِس کی روشنی نہایت تیز تھی۔ چھاؤنی کے تمام حصے اس طرح اُجالے میں میں آ جاتے جیسے دِن نکل آیا ہو۔”
اس کے بعد خود لوئس کی نسبت لکھتا ہے:
“ہر مرتبہ جب بان چھوٹنے کی آواز ہمارا ولی صفت پادشاہ سنتا تھا، تو بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور روتے ہوئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر نجات دہندہ سے التجائیں کرتا۔ مہربان مولٰی! میرے آدمیوں کی حفاظت کر! میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے پادشاہ کی اِن دعاؤں نے ہمیں ضرور فائدہ پہنچایا۔”
لیکن فائدہ کا یہ یقین خوش اعتقادانہ وہم سے زیادہ نہ تھا۔ کیونکہ بالآخر کوئی دُعا بھی سُودمند نہ ہوئی اور آگ کے بانوں نے تمام برجیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔
یہ حال تو تیرھویں صدی مسیحی کا تھا۔ لیکن چند صدیوں کےبعد جب پھر یورپ اور مشرق کا مقابلہ ہوا،تو اب صورت حال یکسر اُلٹ چکی تھی۔ اب بھی دونوں جماعتوں کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے، جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے تھے۔ لیکن اتنی تبدیلی کے ساتھ کہ جو دماغی جگہ پہلے یورپ کی تھی ، وہ اب مسلمانوں کی ہو گئی تھی اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی، اسے اب یورپ نے اختیار کر لیا تھا۔
اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ علماء ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کر دینا چاہیے کہ انجاحِ مقاصد کے لیے تیر بہدف ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ شیخ عبدالرحمن الجبرتی نے اس عہد کے چشم دید حالات بیان کیے ہیں اور بڑے ہی عبرت انگیز ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیرِ بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے۔ اُدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں۔ اِدھر لوگ ختمِ خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے، “یا مقلب القلوب یا محوّل الاحوال” کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھا۔ جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو، دوسری طرف ختم خواجگان!
دُعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر اُنہی کو پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لیے تو وہ ترکِ عمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں۔
اقتباس: غبارِ خاطر از ابوالکلام آزاد

بشکریہ ابوشامل بلاگ

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;