Wednesday, February 26, 2014

قرآن اور ہم

آج ہم قرآن کو کتنا سمجھتے ہیں ، کیا ہمارے لیئے کوئی حجت باقی ہے۔ مولانا ابوالاکلام آزاد نے اپنی "ام الکتاب" کا انتساب کچھہ اس طرح لکھا ہے 
۔۔۔۔
غالبا دسمبر ١٩١٨ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے، مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کل اوڑھے کھڑا تھا۔

آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔
کہاں سے؟
سرحد پار سے۔۔
یہاں کب پہنچے؟
آج شام کو پہنچا میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔ 
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھاکہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔
مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔

١٢ ستمبر سنہ ١٩٣١ء کلکتہ

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;