Thursday, May 1, 2014

دور جدید کے منافق

کسی زمانے میں ایک گانا مقبول ہوا تھا کہ "میرا جوتا ہے جاپانی ، پتلوں انگلستانی ،سر پہ لال ٹوپی روسی، پھر بھی دل ہے ہندستانی ۔۔۔ "  خیر وہ صاحب تو شغل لگا کر چلے گئے اسے کیا پتا تھا کہ عشروں بعد روئے زمیں پہ ایسی بھی مخلوق آنے والی ہے جس کے پیٹ میں امریکہ اور یورپ کی "سامراج" کا نوالہ ہوگا، جسم پہ اٹالین کوٹ ہوگا مگر ان کا دل پھر بھی کارل مارکس کی محبت میں دہڑ رہا ہو گا ۔۔۔۔ المھم اس مخلوق کو آک کل سیکیولر کہتے ہیں اور وہ ہر اس خطے میں پائی جاتی ہے جہاں لوگ بھوک اور افلاس سے تنگ آکر اپنا نظریہ انقلاب تو کیا اپنا دین ایمان بھی بیچ دیتے ہیں، یہاں بھی ایسے ننگے اور بھوکے افراد کی کمی نہیں ہے ۔ بقول ان کے سیکولرازم تمام مذاہب سے لاتعلقی اور غیر جانبدار لادینت کا نام ہے لیکن یہ اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کے مذہبی پیشواؤں، رسوم و رواج اور عقیدوں کا بیحد احترام ضروری ہے مگر سیکیولر ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ اسلام کے بارے ہرزہ سرائی کی جائے۔ کہیں اگر مسلمان اپنی زمین پہ قابض قوتوں سے جہاد کر رہے ہوں انہیں دہشت گرد جتلایا جائے۔ ان کے مطابق نصابی کتابوں میں صلاح الیدین ایوبی اور ٹیپو سلطان جیسے مجاہدین ملت پر مضامین دہشت گردی کا فروغ ہیں مگر چی گویرا ، بھگت سنگھ یا اسٹالن کی تعریف انسانیت کی اعلی ظرفی ہے۔ یہ فلسطین ، افغانستان، برما، کشمیر سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام پر تو مرجانہ خاموشی اختیار کیئے رکھتے ہیں مگر مسلمان کے ہاتھوں کوئی دل آزاری کرنے والا گستاخ قرآن یا رسالت مارا جائے تو ان کے سروں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے ، بلکہ ان کے عقیدے کے مطابق امریکی ، نیٹو فورسز اور ڈرون کے ہاتھوں مرنے والے مسلمان شہید ہی نہیں لیکن ہیں ، ہاں نبی اکرم صلی اللہ وسلم کی گستاخی والے قانون کا مذاق اڑانے والا سلمان تاثیر اور پاکستانی جیل میں قتل ہونے والا بھارتی دہشت گرد سربھجیت سنگھ ہی اصلی "شہید" ہیں۔  مسلمان ممالک اور معاشروں میں خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی تو ہر طبقہ کرتا رہتا ہے ، ان میں مذہبی اور سیاسی جماعتیں  سب شامل رہتی ہیں تاکہ حکمران قوتوں کو اصلاح کی دعوت دی جائے کی ان مسائل پر توجہ دی جائے۔ مگر سیکیولر افراد ان کمزوریوں اور خرابیوں کا فائدہ اٹھا کر اسلام اور مسلمانون کی ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے رہتے ۔   حالانکہ  سیاسی اور سماجی برائیاں ہر معاشرے کا حصہ ہیں ، چاہے وہ وہ ترقی تافتہ مغرب ہو ، یا ترقی پذیر مشرق۔ ایک سیدہی سی مثال دے کہ بتاتا ہوں کہ یوں تو عورتوں پہ تشدد ہمارے معاشرے کا ایک منفی پہلو رہا ہے جسے ہر کوئی بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور یہ تمام سیکیولر حضرات کا دل پسند موضوع رہا ہے جسے خوب اچھالا جاتا ہے، اب یہاں دیکھیں کہ صرف  2003میں محظ امریکہ میں 00000  عورتیں غیرت کے نام پہ قتل کی گئیں ، جی جناب امریکہ میں اور یہ ان کے اعداد شمارات ہیں یقین نہیں تو آپ ان کے National Organization for Women (NOW)  کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھ لیں۔ اگر یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا تو صاحبان کا غم کے مارے پتہ نہیں کیا حال ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور اسلام ان کا آسان اور دل پسندیدہ ٹارگیٹ ہے۔

ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔  
خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم

ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔    خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم
ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔    خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا ہر اول دستہ یعنی اسکواڈرن لیڈر سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کی بیواہیں اور موجودہ امریکہ کی رکھلیں ہیں ، جو شرم کے مارے افغان جہاد کو سوویت یونین کی بربادی کا پورا نہیں تو کم از کم ایک ہم پہلو ضرور مانتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز اور میڈیا میں بھرتی ہوتے ہیں ، کام تو ان کے پاس بہت ہی نایاب ہوتا ہے چناچہ یہ فارغ بیٹھ کر آپس میں انقلاب کے فکر کرتے ہیں، آج کل ان کا ذریعہ نشر فیس بک ہے ، جہاں یہ بل سے بیٹھ کر تیر اور تلواریں چلا رہے ہوتے ہیں۔    خود کو عقل کا پیمانہ مانتے والے یہ کسی اور کو یہ عقلمند ماننے کے لیئے تیار نہیں جب تک کے ان کے پاس کم از کم ISO-9001 کا سرٹیفکیٹ نہ ہو یا وہ کسی بھی غیر ملکی برانڈ کی وسکی نہ پیتا ہو۔ خود ان کی منطق کی سطع چار طنزیہ سطروں سے آگے جا نہیں پاتی جس سے عام مسلمان پہ اپنی دانشمندی جھاڑتے ہیں مگر جب انہیں  للکارنے والے للکارتے ہیں تو ایسے غائب ہوجاتے جیسے شیر کو دیکھ کر گدہے بھاگ نکلتے ہیں ۔  آپ ٹی وی کی ٹاک شوز میں کے کس طرح یہ لوگ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے معمولی کالم نگاروں کے سامنے بھی ٹک نہیں پاتے حالانکہ یہ افراد دین اسلام کے معمولی سے بھی اسکالر بھی نہیں ہیں۔
 جبکہ ان کے فرنٹ بیک پہ ایک اسکواڈ ہے جسے ہم قوم پرست مانتے ہیں ، ان کا ماننا ہے پاکستان کو توڑا نہیں جا سکتا جب تک کے یہاں نسل پرستی کے نام پر تعصب پرستی نہ کی آگ نہ لگائی جائے اور خوب خون بہایا نہ جائے اور لوگ مسلمانیت بھول کر قومیت پہ نہ آجائیں۔  اسلام کے ساتھ ساتھ پاکستان فوج اور ان سے منسلک ادارے ہوتے ہیں ، بھارت کے گن گانا ان کے عقیدے میں شامل ہے کہ وہ ان کا مددگار اور دوست ملک ہے۔ عشروں سے بڑے ہی جتن کرتے آ رہے ہیں ، بیچاروں سے نہ تو سیاست ہوتی ہے نہ ہی بغاوت۔ ان کے بیک پہ  وہ رافضی پیروکار جو خانہ کعبہ پہ قبضے کے خواب عشروں سے سمائے جی رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے پاکستان نہ صرف عربوں کی مدد کر رہا ہے بلکہ انہیں مہلک ہتھیار دے کر ان کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے رہا۔ ان کا قبلہ ان قبلہ اول ہے نہ قبلہ دوم ان کا قبلہ تہران اور قدس کی طرف ہوتا ہے ان کا خیال ہے ایک نہ ایک دن یا تو ایران یا پھر اسرائیل عربوں کی بچھی کچھی قوت بھی برابر کردیگا یعنی حب علی ہو نہ ہو بغض معاویہ ضرور ہے۔
چوتھے رینک میں وہ لوگ ہیں جن کو ملائوں سے خواب میں ڈر لگتا ہے ، وہ محض اس لیئے نہیں کہ ملا خونخوار ہیں ۔ مگر اپنی حرکتوں سے خود بھی پریشان ہیں کہ ان کے لیئے یہاں اس معاشرے میں کوئی جگہ بن رہی جو ان  الٹ شلٹ بکواس اور الٹی سیدہی حرکتیں برداشت کرے۔ اس طبقہ میں ہر قسم کے مسلم ، غیر مسلم اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں ، یہ ان کی تہہ دل کی خواہش ہے اگلے مورچوں والے کامیاب رہیں تاکہ حق کی ضرب ان تک نہ پہنچ نہ پائے۔ ہر مسلمان کو ایسی قوتوں کی پہچان رکھنی چاہیئے تاکہ سانپ اور ان کی بلوں کا پتہ رہے، نیز ان سے خوفزدہ رہنے کی ضرورت نہیں یہ قرآن میں اللہ تعالی کا سچا وعدہ ہے کہ  "بے شک وہ اللہ کافروں کو گھیرے میں رکھا ہوا ہے ۔" اور "اے نبی ص بیشک تمہارا دشمن ہی بے نشان رہے گا"۔

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.
 
;